کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
جمعہ کا وقتِ مستحب : فقہائے احناف کے اس بارے میں دو قول ہیں : (1)— پہلا قول: ظہر کی طرح جمعہ میں بھی سردی میں تعجیل اور گرمی میں اِبراد مستحب ہے۔ (2)— دوسرا قول: جمعہ میں سردی و گرمی دونوں موسموں میں تعجیل ہی کی جائے گی،تاخیر کسی بھی موسم میں بہتر نہیں ۔(عمدۃ القاری : 6/202)(رد المحتار : 1/367) علامہ انور شاہ کشمیری نے دوسرے قول یعنی مطلقاً تعجیل کو ترجیح دی ہے۔(فیض الباری (3/136) اور یہی راجح معلوم ہوتا ہے ، اس لئے کہ جمعہ میں ” تبکیر “ (جمعہ کے لئے جلدی پہنچنے) کا حکم ہے ، جس پر کثیر روایات دلالت کرتی ہیں ،اورتبکیر پر عمل کرتے ہوئے اگر ابراد کیا جائے گا تو لوگوں کو اذیت ہوگی ، لہذا ہر موسم میں تعجیل ہی بہتر ہے ۔ فائدہ : جو حضرات جمعہ کو ظہر پر قیاس کرتے ہوئے اُس میں بھی سردی اور گرمی میں فرق کرنے کے قائل ہیں ، یعنی سردی میں تعجیل اور گرمی میں تاخیر کو مستحب قرار دیتے ہیں اُن کا اِستدلال بخاری شریف کی اِس حدیث سے ہے: ”كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ، يَعْنِي الجُمُعَةَ “یعنی نبی کریمﷺکا یہ معمول تھا کہ جب سردی ہوتی تو نماز کو جلدی اداء کرلیتے اور جب گرمی شدید ہوتی تو ٹھنڈا (یعنی تاخیر)کرکے اداء کرتے۔یعنی جمعہ کی نماز ۔(بخاری:906)