کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:﴿إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ﴾ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کیلئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو ۔(سورۃ الجمعۃ:9)اِس آیت میں بھی ”نُودِيَ“ کے لفظ میں اذانِ جمعہ کا ذکر صراحۃً موجود ہے ۔جمعہ کی دو اذانوں کا پس منظر : آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں جمعہ کی ایک ہی اذان ہو اکرتی تھی ، جس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد مسجد سے باہر اذان ہوتی تھی ، اور پھر خطبہ کے بعد نماز کے لئے اقامت کہی جاتی تھی ۔ حضرات شیخین کے عہد میں بھی یہی طریقہ تھا ۔ پھر حضرت عثمان کے زمانے میں جب لوگوں کی تعدا بہت بڑھ گئی تو انہوں نے حضرات صحابہ کرام سے مشورہ کر کے اُن سب کے اتفاق رائے سے ایک اور اذان کا اضافہ کیا ، جو مسجد سے باہر” زَوراء “کے مقام پر ہوتی تھی ،اور دوسری اذان جو پہلے باہر ہوتی تھی وہ مسجد میں امام کے سامنے دی جانے لگی ۔ اس طرح جمعہ کی دو اذانیں ہوگئیں ۔ اس دوسری اذان کو بدعت نہیں کہا جا سکتا ، اس لئے کہ ایک جلیل القدر اور عظیم المرتبت خلیفۂ راشد نے تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں اس کو جاری کیا ہے جو حدیث ” فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ “ کی ر و سے واجب الاقتداء ہے ۔ نیز بدعت کی تعریف یہ ہے کہ جس کو قرون مشہود لھا بالخیر کے بعد دین کی حیثیت سے جاری کیا گیا ہو ، جبکہ حضرت عثمان کا زمانہ قرون مشہود لھا بالخیر میں شامل ہے ۔ (درسِ مشکوۃ : 340،341) (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ : 1/342،343)