کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
(2)اِمام کو عالم ہونا چاہیئے ، بالخصوص مسائلِ صلوۃ سے اچھی طرح واقفیت ہونی چاہیئے :اِمام ایسا ہونا چاہیئے جوشریعت کے تمام احکام بالخصوص نماز کے مسائل و احکام کو اچھی طرح جانتا ہو، تاکہ نماز کے اندر فساد اور کراہت سے بچ سکے اور سجدہ سہو وغیرہ کے مسائل میں صحیح راہ کو اپناسکے۔(شامیہ:1/557) ایک روایت میں ہے :اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہاری نمازیں (بارگاہِ الٰہی میں)قبول کی جائیں تو اپنے بہترین لوگوں کو اِمام بناؤ، کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہوتے ہیں۔إِنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُقْبَلَ صَلَاتُكُمْ، فَلْيَؤُمَّكُمْ عُلَمَاؤُكُم،فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ۔(کنز العمّال:20434)(3)قرآن کریم اچھی طرح پڑھنا جانتا ہو :یعنی تجوید کے قواعد کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت صحیح کرسکتا ہو ، تاکہ نماز کا اہم رکن قراءت میں کوئی غلطی نہ ہو ۔اور اِسی میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ ”حسَن الصّوت“ یعنی خوش الحان ہو ، اچھی اور خوبصورت میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا ہو ، ظاہر ہے کہ یہ لوگوں کی پسند کا معیار بھی سمجھا جاتا ہے، لوگوں کو ایسے اِمام کے پیچھے نماز پڑھنے کی رغبت ہوتی ہے اور شرعاً بھی ایک قابلِ تعریف وصف ہے ۔(شامیہ:1/557، 558)(4)اِمام کو مشتبہ امور سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے :اِمام کو گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ مشتبہ امور سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے ، جو تقویٰ سے بھی آگے کا درجہ ہے، جس کو ”ورع“ کہتے ہیں، اور اس کو منصبِ اِمامت کی وجوہِ ترجیح میں سے شمار کیا گیا ہے ۔(شامیہ:1/557)(5)اِمام کو حسنِ اخلاق کا حامل ہونا چاہیئے :اِمامت کا تعلّق چونکہ براہِ راست عوام کے ساتھ ہے ، اِس لئے اس میں حسنِ اخلاق کی نہایت اشد ضرورت ہوتی ہے، نیز حسنِ اخلاق سے انسان لوگوں کے دل میں گھر