کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
میں نہ اُٹھ سکے گا اُسے چاہیئے کہ رات کے اوّل حصہ میں وتر پڑھ لےاور جس کو اِس بات کی طمع (لالچ)ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں اُٹھ سکے گا اُسے رات کے آخری حصے میں وتر پڑھنی چاہیئے ، اِس لئے کہ رات کے آخری حصے میں نماز پڑھنے میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، اور یہ افضل ہے۔مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ۔(مسلم:755) ومثلہٗ فی (ترمذی:455)وتر کی رکعات کتنی ہیں : وتر کی تین رکعتیں ہیں ، اور اُن کے درمیان سلام کا فصل بھی نہیں ہے ، اِس سلسلے میں بہت سی روایتیں ہیں ، ایک صریح روایت ملاحظہ فرمائیں : حضرت عائشہ صدیقہسے مَروی ہے ،فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺجب عشاء کی نماز پڑھ لیتےتو گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز پڑھتے،پھر اُس کے بعد اُس سے زیادہ طویل دو رکعت پڑھتے،پھر تین رکعت ایک سلام کے ساتھ بغیر کسی فصل کے وتر پڑھتے،پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتےجس میں بیٹھ کر ہی آپ رکوع سجدہ کیا کرتے تھے۔عَنْ عَائِشَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ دَخَلَ الْمَنْزِلَ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهُمَا رَكْعَتَيْنِ أَطْوَلَ مِنْهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ لَا يَفْصِلُ فِيهِنَّ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، يَرْكَعُ وَهُوَ جَالِسٌ، وَيَسْجُدُ وَهُوَ قَاعِدٌ جَالِسٌ۔(مسند احمد:25223)وتر کی رکعات میں مستحب قراءت: وتر کی تینوں رکعتوں میں کسی بھی سورت کی تلاوت کی جاسکتی ہے ، تاہم احادیثِ طیّبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ