کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
اِس روایت کا مطلب بھی یہی ہے۔ أَيْ: مُنْضَمَّةٌ بِشَفْعٍ قَبْلَهَا.یعنی وتر وہ ایک رکعت ہے جو شفعہ سے ملی ہوئی ہو ۔ یہ مطلب لینا ضروری ہے تاکہ احادیث کے درمیان تطبیق ہوجائے اور تعارض باقی نہ رہے ۔ حضرت عثمانیفرماتے ہیں : وتر در اصل ایک رکعت ہے ،لیکن وہ مفردۃً اداء نہیں کی جاسکتی ، بلکہ دو رکعت ماقبل کے ساتھ ملاکر ہی اداء کی جائے گی ، اِس کے بغیر وہ اداء نہیںہوگی ۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہاجاتا ہے: ”الحَجّ عَرَفۃ“یعنی حج تو عرفہ کا نام ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ صرف حج وقوفِ عرفہ سے نہیں ہوتا ،بلکہ اُس کے ساتھ طوافِ زیارت اور دوسری چیزیں بھی تو ضروری ہوتی ہیں ۔(فتح الملھم:5/71)” يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ، لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ إِلَّا فِي آخِرِهَا “ کا مطلب: ایک روایت میں ہے،حضرت عائشہ صدیقہفرماتی ہیں :نبی کریمﷺرات کو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے،اُن میں سےپانچ رکعتوں میں وتر پڑھتے ، اور اُن میں سوائے آخری رکعت کے کسی میں بھی (تشہد کیلئے)نہیں بیٹھتے تھے۔كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ، لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ إِلَّا فِي آخِرِهَا۔(مسلم:737) اِس حدیث میں دو لفظ قابلِ وضاحت ہیں : (1)”یوتر من ذلک بخمس“کا مطلب۔ (2)”لا يجلس فی شیء الا فی آخرها“کا مطلب۔”یوتر من ذلک بخمس“کا مطلب : پہلے وتر کی پانچ رکعتیں مشروع تھیں ، یہ اُس وقت کے اعتبار سے کہا گیا ہے ۔ (مرقاۃ : 3/941)