کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے : قیامت کے دن لوگوں میں سب ست اونچی گردن والے مؤذّنین ہوں گے۔الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أعناقا يَوْم الْقِيَامَة۔(مسلم:387) گردنوں کے بلند ہونے سے اُن کی عزت و رفعت کی جانب اِشارہ ہے، یا اِس سے مراد اُن کی ”کثرتِ رَجاء“یعنی امیدوں کی کثرت ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ سے جنت میں داخلے کے امیدوار ہوں گے ، کیونکہ جس کو امید ہوتی ہے وہ گردن اونچی کرکے نمایاں ہونے کی کوشش کرتا ہے۔بعض نے اِس سے مراد اجرو ثواب کی زیادتی کو بیان کیا ہے، او ر گردنوں کے اونچا ہونے سے ایک مطلب لوگوں کا سردار ہونا بھی بیان کیا ہے۔ (نفحات التنقیح : 2/348) نبی کریمﷺ(جب کسی دشمن پر لشکر کشی کااِرادہ رکھتے تو)صبح ہونے پر حملہ کیا کرتے تھےاور آپﷺ(فجر ہوجانے پربھی)کان لگاکر(اُس آبادی میں جہاں آپ کا حملے کا اِرادہ ہوتا)اذان سنا کرتے تھے،اگر اذان کی آواز آجاتی تو حملہ کرنے سے رک جاتے ،ورنہ حملہ کردیا کرتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے(راستے میں)سنا کہ کوئی شخص ”اللہ أکبر اللہ أکبر“ کہہ رہا ہے،آپﷺ نے اِرشاد فرمایا :یہ شخص اِسلام کے طریقے پر ہے،پھر اُس شخص نے ”أشھد أن لااِلٰہَ الّا اللہ“ کہا ، آپ نے اِرشاد فرمایا: تم دوزخ سے نکل گئے۔صحابہ کرام نے( یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کون ہے چاروں طرف) دیکھا تو وہ ایک بکریاں چَرانے والا شخص تھا۔كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغِيرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى الْفِطْرَةِ» ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا