کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
بیس رکعات تراویح کی اُس حدیث کی تضعیف کی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ تضعیف کسی طرح درست نہیں ہوسکتی ، اِس لئے کہ جب اِس حدیث کے مطابق صحابہ کرام کا اِجماع منقول ہے، حضرت عمرکا فیصلہ اور صحابہ کرام کا بلا کسی نکیر کے اس کو قبول کرنا منقول ہے تو حدیث کا ضعف کہاں باقی رہ سکتا ہے ، اِس لئے یہی کہا جائے گا کہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود اجماعِ صحابہ کی وجہ سے قوی ہوگئی ہے ، لہٰذا اس سے استدلال کرنا بلاشبہ درست ہے۔(منحۃ الخالق علی البحر الرائق:2/72) ہمارے زمانے میں جو اہلِ حدیث کا یہ کہنا ہے کہ تراویح کی صرف آٹھ رکعات ہیں ، اس سے زیادہ نہیں ، یہ جمہور صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین ، فقہاء ومحدّثین ،ائمہ اربعہ و مجتہدینِ امّت ، شرق و غرب کے تمام اہلِ علم کے اتفاق اور اِجماع کے سراسر خلاف ہے ، جس کی دلائل کے اعتبار سے کوئی قوّت اور حیثیت نہیں ۔بھلا جس مسئلہ پر حضرات صحابہ کرام کا اِجماع ہو، ائمہ اربعہ اُس مسئلہ پر متفق ہوں،اور ہر زمانے کے فقہاء و محدّثین اُس کے قائل رہے ہو ں، اور اس میں کسی کا کبھی کوئی اختلاف نہ رہا ہو ،نیز اُس مسئلہ کو ابتداء ہی سے تلقّی بالقبول یعنی عمومی قبولیت کادرجہ حاصل رہا ہو اُس کا آج کے ”حدیثوں کے چند اردو تراجم پڑھ کر عالم بننے والے“کیسے اِنکار کرسکتے ہیں ؟ اور اُن کے انکار کی حضرات صحابہ کرام ،تابعین و تبعِ تابعین و ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدّثین کےسامنے کیا حیثیت ہوسکتی ہے……؟؟۔﴿وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ﴾۔(النساء:115)