کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
اصل مسئلہ : اس بارے میں اصل مسئلہ یہ ہےکہ اُن کو گھر میں پڑھنا اولیٰ ہے ، چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تلقین کی گئی ہے ، اور گھروں کو قبرستان بنانے سے منع کیا گیا ہے ۔ نیز اس میں گھر والوں کو نماز کی ترغیب بھی ہے اور خیرو برکت کے نزول کا سبب بھی ۔ مستثنی ٰ صورتیں : علامہ شامی نے 9 صورتیں ایسی لکھی ہیں جن میں سنن کا مسجد میں پڑھنا افضل ہے : (1)تراویح ۔ (2)صلوۃ الکسوف ۔ (3)تحیۃ المسجد ۔(4)سنت ِ احرام ۔ یعنی احرام باندھنے سے پہلے جو دو رکعت اِحرام کی سنّت پڑھی جاتی ہے ۔ (5)دو گانہ طواف ۔ یعنی طواف کے بعد کی دو رکعتیں ۔ (6)معتکف کے لئے ۔(7)قدوم ِ سفر کی نماز ۔یعنی سفر سے واپس آکر جو نفل پڑھی جاتی ہے ۔(8)گھر جانے میں سنن کا وقت فوت ہونے کا خوف ہو ۔ (9)جمعہ کی سنت قبلیہ ۔ اس لئے کہ جمعہ میں جلدی جانا افضل ہے ، پس سنت بھی مسجد میں پڑھی جائے گی۔ (رد المحتار مع الدّر المختار : 2/22 )(معارف السنن : 4/111) فائدہ : ملاعلی قاری نے دور سے آنے والوں کےلئے مسجد حرام اور مدینہ منورہ میں بھی نوافل کو پڑھنا مستحب قرار دیا ہے ۔ اس طرح مستثنی ٰ صورتیں کل گیارہ ہوجاتی ہیں ۔ موجودہ فتوی : اب چونکہ لوگوں میں سستی اور غفلت غالب ہے ، گھر جاکر مشغولیت ہوجاتی ہے ، اور عموماً دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ فرض پڑھ کر جانے والے گھر میں بھی سنتوں کا صحیح اہتمام نہیں کرپاتے ۔ لہٰذا اب فتوی یہ دیا جاتا ہے کہ فرائض کی طرح سنن مؤکدہ اور واجب بھی مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے ، یعنی سنن مؤکدہ اور واجب فرائض کے ساتھ لاحق ہوگئے ہیں ۔ تاہم پھر بھی اگر کوئی واقعۃً گھر جاکر صحیح اہتمام کرسکے اور اُس میں کوتاہی کاکوئی امکان نہ ہو تو اب بھی اصل