کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
میں اُس کو سلام کا جواب دیتا ہوں۔مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ۔(ابوداؤد:2041) فائدہ: حدیث کے اس جملے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آپ ﷺ اپنے روضہ اقدس میں نعوذ باللہ زندہ نہیں ، جیسا کہ باطل نظریہ کے حامل لوگ اِس سے اِستدلالِ فاسد کرنےکی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی روح مبارک چونکہ ہمہ وقت تجلیاتِ الہی کے مشاہدہ میں مستغرق رہتی ہے،اس لئے اس کو حالتِ استغراق و مشاہدہ سے ہٹا کر عالمِ دنیا کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ، تاکہ آپﷺ اپنے امتیوں کےدرود و سلام کو سنیں اور اس کا جواب دیں ، چناچہ روح مبارک کے اسی متوجہ کرنے کو ان الفاظ میں تعبیر کیا گیا کہ : ”اللہ تعالی میری رو ح کو مجھ پر لو ٹا دیتا ہے “ ۔ یعنی امتیوں کے سلام کا جواب دینے کی طرف متوجہ کردیتا ہے۔ (مظاہر حق: 1/600)(مرقاۃ : 2/743) نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ” إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي “ جملہ حالیہ ہو ، پس اِس صورت میں معنی یہ ہوگا : کوئی شخص جب مجھ پر سلام بھیجتا ہےاِس حالت میں کہ اُس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے روح لوٹادی ہے اِس لئے میں خود اُس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ایک احتمال یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ روح سے مجازاً ”نطق“ یعنی گویائی مراد ہے ، پس اِس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مجھے گویائی عطاء فرماتے ہیں اور میں بذاتِ خؤد اُس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔(عون المعبود: 6/20،21)