انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۷۔ گو میں نجات کو اعمال پر منحصر نہیں سمجھتا، محض فضل پر سمجھتا ہوں، لیکن بندہ کے ذمّہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس کے اوامر کو بجا لائے اور نواہی سے اجتناب رکھے، اس لیے مجھ کو اپنے اعمال کی کوتاہی پر سخت ندامت ہے اور ہمیشہ اپنی اصلاح کی فکر رہتی ہے۔ ۱۸۔ اپنے کسی منتسب کی دینداری اور تقویٰ کے حالات سُن کر فرمایا کرتے ہیں کہ وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے جس کی اولاد کمالات میں اس سے بڑھ جاوے۔ یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو میرا نیک نام کرنا منظور ہے کہ جو پہلے ہی سے نیک ہیں، ان ہی کو میرے پاس بھیج دیتے ہیں اور میں مفت میں نیک نام ہو جاتا ہوں ؎ نے دام خوش نہ دانہ خوش اما زاتفاق ہر بار شاہباز در افتد بہ دام ماعارف کا اپنے کمالات کی نفی کرنا : فرمایا کہ عارف کی جتنی بصیرت بڑھتی جاتی ہے عظمتِ حق کا انکشاف روز افزوںہوتا چلا جاتا ہے اور آدابِ عبودیت کے روز بروز نئے نئے دقایق پیشِ نظر ہوتے چلے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عبادت وطاعات کو گو وہ کتنے ہی کامل ہوں، حقوقِ عظمت حق کے لحاظ سے ہیچ سمجھتا ہے اور اس کا یہ سمجھنا بالکل حق بجانب ہوتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا حق کسی طرح ادا ہی نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے عارف کو اپنی کسی درجہ کی حالت پر بھی قناعت نہیں ہوتی اور کسی درجہ کی بھی اصلاح پر اطمینان نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ قسمیں کھا کھا کر اپنے کمالات کی نفی کرتا رہتا ہے۔شفقت علی المریض : حضرتِ والا کو مریض پر اس قدر شفقت ہوتی ہے کہ اس کی درخواست کو حتی المقدور ضرور پوری فرماتے ہیں۔ مبتلائے قبض وہیبت: مبتلائے قبض وہیبت کو تکلیف تو بے شک سخت ہوتی ہے، لیکن قطعِ طریق میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔حکم حالت قبضِ وہیبت : ۱۔ اس شخص کو کبھی عجب نہیں ہوتا، سمجھتا ہے کہ میں بدحال ہوں۔ ۲۔ ہمیشہ ترساں رہتا ہے، اپنے علم وعمل پر ناز نہیں ہوتا، سمجھتا ہے کہ میرا علم وعمل وحال کیا چیز ہے، اس کی