انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مقام کہتے ہیں، پس یہ فی نفسہٖ غیر اختیاری ہے، لیکن باعتبار اسباب کے اختیاری ہے اور یہی رسوخ وثبات اس حیثیت سے کہ غلبۂ ذکر ودوامِ طاعت کا ملزوم ہے، نسبت کہلاتا ہے (یعنی حضرتِ حق سے ایسا تعلقِ قوی جس پر غلبۂ ذکر اور دوام طاعت کا ترتب لازم ہو) اور اس نسبت من العبد پر ایک دوسری نسبت من الحق موعود ہے، یعنی رضا وقرب،پس اہلِ طریق جب لفظ نسبت کا اطلاق کرتے ہیں، مراد ان ہی دو نسبتوں کا مجموعہ ہوتا ہے، نہ صرف ملکئہیادداشت جس میں بہت سے غیر محقِّق دھوکہ میں ہیں۔مراقبہ برائے دفعِ وساوس : اپنی تمام طاعات صلوٰۃ وتلاوت واذکار بلکہ افعالِ مباحہ میں بھی اس کا تصور رکھے کہ یہ سب عنقریب حق تعالیٰ کے اجلاس میں پیش ہوں گے تو ان میں کوئی ایسا اختیاری خلل نہ ہو جس سے پیشی کے قابل نہ ہوں۔مجاہدہ اضطراریہ کا نفع وادب : جس طرح وضو کا بدل تیمم ہے اور اجر میں اس سے کم نہیں، اسی طرح مجاہدہ اختیاریہ، یعنی اعمال واوراد کا بدل مجاہدہ اضطراریہ، یعنی تشویشات وبلیّات ہیں اور اجر میں ان کے برابر بلکہ منافع میں ان سے اقویٰ ہیں، ان کو نعمت سمجھ کر اطمینان سے کام میں بہ قدرِ وسع مشغول رہنا چاہیے، البتہ دعا کرتے رہیں کہ وہ مبدل بہ راحت وجمعیت ہوں کہ دُعا مسنون ہے، غرض یہ کہ جب تک وہ تشویشات وبلیّات باقی رہیں، تفویض تو فرض ہے اور دعا مسنون ہے اور جب وہ زائل ہو جاویں، شکر واجب ہے اور دونوں حالتوں میں بہ قدرِ وسع مشغول رہنا ادبِ طریق ہے۔عدم زوال پریشانی ومصیبت کا علاج : تنگی اور مصائب کے دور ہونے کا ارادہ ہی چھوڑ دیا جاوے، بلکہ موجودہ پریشانی ہی کے لیے اپنے کو آمادہ کر لیا جاوے، پس دو چیزوں کا التزام کر لیا جاوے، دعا زوالِ مصیبت کی اور استغفار اور ثمرات کو آخرت میں سمجھا جاوے، بس یہ علاج ام العلاج ہے جس میں علاج ہی مقصود ہے، صحت مقصود نہیں۔نمازوں میں حرکتِ فکریہ کے قطع کرنے کی تدبیر : جماعت کی حالت میں اور بالخصوص سرّی نمازوں میں سورہ فاتحہ کے خیالی الفاظ کا استحضار کیا جاوے، جس کو کلامِ نفسی کہا جاتا ہے۔واحد اور جمع دونوں صیغوں سے دعائیں منقول ہونے کی مصلحت : واحد کے صیغہ میں الحاح کی مصلحت زیادہ ہے اور جمع کے صیغے میں دوسروں کے شریک کر لینے سے اقربیت الی الاجابہ کی مصلحت زیادہ ہے، جس وقت جس کیفیت کا غلبہ زیادہ ہو، اس کا اتباع کیا جاوے اور میرا ذوق یہ ہے کہ اول ہر دعا میں منقول کا اتباع کیا جاوے کہ اقرب الی الادب ہے، پھر اس دعا کے تکرار میں ذوقِ وقتی کا اتباع کرے کہ دونوں مجتمع ہوجاویں۔طبعی تسلی وقرار کی کوئی صورت نہ ہونے کا علاج : مطلوب ومامور بہ عقلی واعتقادی قرار ہے اور یہی تفویض ہے جس کو عبادت سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے نہ کہ ذریعہ راحت سمجھ کر، بلکہ عارفینِ کاملین نے جب تفویض میں لذّتِ طبعیہ محسوس