انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیتے ہیں، ان کو دیکھ کر آگے نظر بہت کم پہنچتی ہے کہ کمالِ حق کا مشاہدہ کریں، اس لیے حق تعالیٰ نے امارد وغیر محارم کی طرف نظر کرنے سے منع فرما دیا۔إنَّ اللّٰہ خلق آدم علٰی صورتہ کا مطلب : ارشاد: إنَّ اللّٰہ خلق آدم علٰی صورتہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم ؑ کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ان سے کمالاتِ حق کا ظہور ہوتا ہے، پس صورتِ حق سے مراد ظہورِ حق ہے اور اس میں انسان کی ہی خصوصیت نہیں، بلکہ اس معنی کہ تمام عالم صورتِ حق ہے یعنی مظہر حق، کیوں کہ مخلوق سے خالق کا ظہور ہوتا ہے، افعال سے فاعل کا ظہور ہوتا ہے، لیکن آدم کی تخصیص حدیث میں اس وجہ سے ہے کہ انسان سے بہ نسبت دوسری مخلوقات کے حق تعالیٰ کی قدرت کا ظہور اتم واکمل ہوتا ہے۔’’إِیَّاکُمْ وَلَوْ فَإِنَّہَا مطیّۃ الشیطان‘‘ کے معنی : ارشاد: إِیَّاکُمْ وَلَوْ فَإِنَّہَا مطیّۃ الشیطان اس میں مطلق لَو کی ممانعت نہیں، بلکہ اسی لَو کی ممانعت ہے جو واقعاتِ ماضیہ میں بطورِ حسرت کے استعمال کیا جاتا ہے لو کان کذا لکان کذا کہ اگر یوں کیا جاتا تو یہ نتیجہ ہوتا۔تعلقِ نسبی گو باعثِ ترقی درجات ہے لیکن بدونِ عمل کفیلِ نجات نہیں : ارشاد: حضورﷺ نے اپنی خاص بیٹی کو خطاب کرکے فرمایا کہ اے فاطمہ! اپنا نفس آگ سے بچاؤ میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا۔ مطلب یہ کہ اگر تمہارے پاس اعمال کا ذخیرہ نہ ہوگا تو میں کچھ کام نہ آؤں گا اور اس کی نفی نہیں کہ اعمال کے ہوتے ہوئے بھی میں باعثِ ترقی درجات نہ ہوں گا یا شفاعت نہ کروں گا۔ بزرگوں کے تعلقِ نسبی کے باعث ترقی درجات ہونا خود منصوص ہے۔ {اتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقٰتِہٖ} [آل عمران: ۱۰۲] {فَاتَّقُوا اﷲَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} [التغابن: ۱۶] کی تطبیق: ارشاد: {اتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقٰتِہٖ}، اور {فَاتَّقُوا اﷲَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} کی تطبیق یوں ہے کہ اول تو منتہائے سلوک ہے، یعنی مقصود سلوک کا یہ ہے کہ حقِ تقویٰ حاصل ہو اور ثانی میں ابتدائے سلوک کو بیان فرمایا ہے کہ اس میں شیئاً فشیاً کوشش کی جاتی ہے، مطلب یہ ہے کہ بہ قدرِ استطاعت تقویٰ کرتے رہو، یہاں تک کہ حق تقویٰ حاصلہو جاوے، جیسے کوئی امر کرے کہ چھت پر چڑھو اور وہ گھبرا جاوے کہ میں کیسے جاؤں تو اس کو کہا جاوے گا کہ زینہ کو بہ قدرِ استطاعت ایک ایک درجہ طے کرکے پہنچ جاؤ۔دنیا کا ہونا نہ ہونا دلیل مقبولیت ومخذولیت کی نہیں !: ارشاد: فراخی دنیا سے عند اللہ مقبول ہونے پر استدلال کرنا فاسد ہے۔ چناں چہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: {فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗلا۵ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِO وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ لا۵ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَہَانَنِ O کَلاَّ} [الفجر: ۱۵-۱۷]، جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کا ہونا نہ ہونا دلیل مقبولیت ومخذولیت کی