انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بس اب تو ہم نشیں ایسی جگہ کوئی کہیں ہوتی اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتیتصوف فقہ الفقہ ہے : تحقیق: فرمایا کہ لوگ یہاں آکر مجھ سے فقہ کے مسائل پوچھتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی فقہ تو دوسری جگہ بھی پوچھ لوگے، یہاں مجھ سے فقہ الفقہ پوچھو جس کا دوسری جگہ اہتمام نہیں۔تعلقِ مشایخ کی ضرورت عوام کے لیے : تحقیق: فرمایا کہ بعض طبائع جو ضعیف ہیں وہ بعض فیوض بلاواسطہ نہیں لے سکتے، اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنے اور ہمارے درمیان رسول کو واسطہ بنایا کہ ہم اللہ تعالیٰ تک بلا واسطۂ رسول نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح ہمارے اور رسول کے درمیان وسائط ہیں کہ بلا ان وسائط کے ہم ان فیوض کو حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ رہا حضرت عمرؓ کی رائے کا تو افق بالوحی ہونا جس سے تلقی فیض بلا واسطہ رسول متوہم ہوتی ہے تو یہ بڑا اشکال ہے کہ جو بات رسول کے ذہن میں نہ تھی اس کو حضرت عمرؓ نے بتلا دیا۔ اس کا جواب اہلِ ظاہر نے جو دیا ہے اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ غیر نبی کو بھی نبی پر فضلِ جزوی ہوسکتا ہے۔ لیکن اصل جواب یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کو بھی وہ علم حضورﷺ ہی کے واسطے حاصل ہوا اور وہ شق بھی حضورﷺ کے ذہن میں تھی، مگر بعض دفعہ اقتضائے وقت کے لحاظ سے حضورﷺ کی نظر ایک طرف زیادہ ہوتی تھی اور دوسری طرف نہ ہوتی تھی، اس طرف بھی وقت پر خادموں کے ذریعے سے حاضر کر دی جاتی تھی۔ اس کی ایسی مثال ہے، جیسے ایک اُستاد جو صاحبِ تصنیف بھی ہو وہ اپنے کسی شاگرد کے روبرو کسی مقام کا حل کر رہا ہو اور شاگرد اس موقع پر متنبہ کر دے کہ حضرت آپ نے تو فلاں جگہ اس کو دوسری تقریر سے حل کیا ہے اور فوراً اس کی نظر اس کی طرف چلی جاوے تو اس کو یوں نہ کہا جاوے گا کہ شاگرد اُستاد سے بڑھ گیا، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ یہ اُستاد ہی کا ظل ہے جو اس کو یاد آگیا اور اس نے متنبہ کیا، ایسے ہی حضرت عمرؓ کے اندر مشکوٰۃِ نبوت ہی کے انوار وبرکات تھے کہ وہ شق حاضر ہوگئی جس کو توافق بالوحی ہوگیا تو حقیقتاً وہ بھی حضورﷺ ہی کی رائے تھی۔قرأت کا پسندیدہ طریقہ : تحقیق: فرمایا کہ قاری عبد اللہ صاحب کا پڑھنا مجھ کو بے حد پسند تھا کہ بے تکلف پڑھتے تھے، وہ میرے استاد بھی ہیں۔ ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ قرآن شریف میں کسی لہجہ کا قصد نہ کرنا چاہیے، مخارج وصفات کی رعایت کرنا چاہیے، اس سے جو لہجہ پیدا ہوگا وہ حسین ہوگا۔ بس ادائے مخارج وصفات کے ساتھ جو لہجہ بنتا چلا جائے، پڑھتا جائے، کوئی خاص قصد لہجہ کا اپنی طرف سے نہ کرے۔