انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
استحضار میں زیادہ کاوش نہ کی جاوے، ورنہ قلب ودماغ ماؤف ہو جاویں گے اور یکسوئی فوت ہو جاوے گی۔ زیادہ کاوش سے تعب وپریشانی ہوتی ہے، جس سے نفع بند ہو جاتا ہے، بس معتدل توجہ کافی ہے۔ اسی سے شدہ شدہ ملکہ تامّہ حاصل ہو جاتاہے، غرض زیادہ کاوش مُضر ہے، بس اتنی توجہ کافی ہے جیسے کچّا حافظ سوچ سوچ کر قرآن سنا تا ہے۔برکاتِ ذکر سے محرومی کی وجہ : فرمایا کہ لوگ اکثر برکات ذکر سے محروم رہتے ہیں، اس کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ نفع اور برکت کی نیت سے ذکر نہیں کرتے۔اعمال سے محبتِ حق پیدا نہ ہونے کی وجہ : فرمایا کہ اعمال سے جو محبتِ حق پیدا نہیں ہوتی اس کا سبب یہ ہے کہ محبت حق کی نیت سے اعمال نہیں کیے جاتے، خالی الذہن ہو کر کیے جاتے ہیں۔ذکر میں جہر وضرب کی حد : حضرت والا ذکر میں خفیف جہر وضرب تعلیم فرمایا کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ اگر بعد کو جوش میں آواز بلند ہونے لگے تو بلند ہونے دے، طبیعت کو گھونٹنے کی ضرورت نہیں، البتہ اگر سونے والوں یا مصلّیوں کو تکلیف یا تشویش ہو تو بالکل خفی کی تاکید فرماتے ہیں۔ذکر لسانی ضروری ہے ذکرِ قلبی کافی نہیں : حضرت والا محض ذکر قلبی پر اکتفا نہیں فرماتے، کیوں کہ اس میں اکثر ذہول ہوجاتا ہے اور طالب اسی دھوکہ میں رہتاہے کہ میں ذکر قلبی میں مشغول ہوں، اس لیے ذکر لسانی بھی اس کے ساتھ ضروری ہے ۔اورادِ معمولہ قدیمہ واذکار واشغالِ معمولہ : فرمایا کہ مختصر اوراد کو بھی معمولی نہ سمجھا جاوے اور جن اوراد پر پہلے سے مداومت ہو ان سے طالب کو دلچسپی بھی ہوتی ہے اور دل چسپی کی وجہ سے وہ سہولت اور جمعیت کے ساتھ ان پر مداومت رکھ سکتا ہے، جس سے بہت نفع ہوتا ہے بہ نسبت نئے اوراد کے، لہٰذا ان ہی کو بر قرار رکھنا مصلحت ہے، لیکن اگر پچھلے اوراد اتنے زیادہ ہوں کہ اگر ان سب کو برقرار رکھا جاوے تو افکار واشغال معمولہ مشائخ کے لیے جو ذکر کے لیے زیادہ معین ہیں، وقت ہی نہیں بچتا تو بجائے بعض کو بالکل حذف کرانے کے ان کی مقدار میں بضرورت کمی کرا دیتا ہوں اور کمی کا معیاربفحوائے آیت کریمہ {مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَاج} [الأنعام: ۱۶۰] یہ تجویز کر رکھا ہے کہ دسواں حصّہ باقی رکھتا ہوں، تاکہ کم از کم اصل ثواب تو بدستور قائم رہے، بالکل حذف کرانے کو جی نہیں چاہتا ۔معمولات کے ناغہ میں بڑی بے برکتی ہوتی ہے : حضرت والا بتاکید فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے معمول کو ضرور پورا کرلینا چاہیے، خواہ عذر کی حالت میں بے وضو ہی سہی یا چلتے پھرتے ہی سہی، کیوں کہ معمول کو مقرر کرلینے کے بعد ناغہ کرنے میں بڑی بے برکتی ہوتی ہے۔ چناں چہ حدیث شریف میں بھی اس کی تاکید ہے۔ حضور اقدسﷺ کاارشاد ہے یا عبد