انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لگتاہے کہ شاید اس کا منشا مرض ہو۔ تہذیب: ڈرنا تو بہت اچھی بات ہے ڈر ہی سے امن ہے، لیکن جب اپنی طرف سے نہ طلب ہے نہ اشراف بلکہ انقباض کو بھی ظاہر کردیا اور پھر بھی وہ خدمت کرتے ہیں تو یہ نعمت ہے اس پر گو طبعاً انقباض ہو مگر عقلاً انبساط ہونا چاہیے اور اوّلاً خدا تعالیٰ کا کہ منعم حقیقی ہیں اور ثانیاً ان صاحب کا کہ منعمِ مجازی ہیں، یعنی واسطہ نعمت ہیں شکر ادا کرنا چاہیے اور وہ شکر حق تعالیٰ کا تو اطاعت ہے اور ان صاحب کا ان کے لیے دعا ہے۔شکر کی حقیقت : تہذیب: شکر کی حقیقت یہ ہے کہ جو حالت طبیعت کے موافق ہو خواہ اختیاری ہو یا غیر اختیاری ہو اس حالت کو دل سے خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھنا اور اس پر خوش ہونا اور اپنی لیاقت سے اس کو زیادہ سمجھنا اور زبان سے خدا تعالیٰ کی تعریف کرنا اور اس نعمت کا (جوارح سے) گناہوں میں استعمال نہ کرنا شکر ہے۔طریق تحصیلِ شکر : تہذیب: شکر کی ماہیت کے اجزا سب افعالِ اختیاریہ ہیں، ان کو بتکرار صادر کرنا یہی طریقہ تحصیل اور یہی طریقہ تسہیل ہے۔ناشکری مذموم کی حد : تہذیب: ناشکری جو مذموم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناشی ہے منعم کی بے تعلقی سے اور جو چیز منعم کے غایتِ تعلق سے ناشی ہو وہ محمود ہے۔ مثلاً: چوری ہوگئی اور اس کے سوچنے سے افسوس اگر نہ ہو تو اس کی ناشکری نہ کہیں گے، کیوں یہ عدم تأسف ناشی ہے حق تعالیٰ کے غایت تعلق سے اس کو پیشِ نظر ہے کہ کوئی کام حق تعالیٰ کے بدونِ مشیت تو ہوتا نہیں اور جو مشیت سے ہوتاہے وہ سب خیر ہی خیر ہے، اس لیے تأسف کی ضرورت نہیں۔اعمالِ صالحہ کو عطائے حق ہونے کی وجہ سے قابلِ قدر سمجھو : تہذیب: عطائے حق ہونے کی وجہ سے یہ نماز وروزہ جس درجہ میں بھی ہے قابلِ قدر ہے، لیکن اپنا کچھ کمال نہ سمجھے، جیسے ایک چمار کو بادشاہ موتی دے، تو وہ اپنے کو چمار ہی سمجھے گا، مگر اس کے ساتھ ہی موتی کو موتی سمجھے گا۔ پس شکر کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کو چمار وناقابل ہی سمجھو۔ مگر اعمالِ صالحہ کو عطائے حق ہونے کی وجہ سے قابلِ قدر سمجھو اور نعمتِ حق کی بے قدری نہ کرو۔تفویض وتوکل طریقۂ حصولِ تفویض : تہذیب: خدا کی تجویز میں اپنی تجویز کو فنا کردو۔ ابتدا میں تواہل اللہ کو یہ حالت تکلف کے ساتھ حاصل ہوتی ہے، خدا تعالیٰ کی حکمت وقدرت کو سوچ سوچ کر اپنے ارادہ وتجویز کو فنا کرناپڑتاہے، پھر یہ حالت ان کے لیے امرِ طبعی بن جاتی ہے۔