انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملازموں کو بھی تنخواہ توقیر کے ساتھ دیتا ہوں۔ ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں، پھینک کر نہیں دیتا جیسا کہ متکبرین کا شعار ہے۔ جب گھر کے لوگ نہیں ہوتے اور صبح کو ملازم کے ساتھ گھر سے باہر جانا ضروری ہوتا ہے تو ملازم کے بیدار ہونے کے بعد قصداً کسی کام میں مشغول ہو جاتا ہوں تاکہ وہ باطمینان اپنی ضروریات سے فارغ ہو لے اور میرا تہیّہ اور اثر دیکھ کر اس کو عجلت نہ ہو۔اہل خصوصیت کو بھی جوابی خط لکھنا : اگر اہلِ خصوصیت کو بھی اپنے کسی کام کے لیے کچھ لکھتا ہوں تو جوابی خط بھیجتا ہوں۔مہمان کو ٹھہرانے میں اصرار نہ کرنا : کوئی کیسا ہی محبوب مہمان ہو اور اس کے ٹھہرانے کو کتنا ہی جی چاہتا ہو کبھی اس کی مرضی کے خلاف اصرار نہیں کرتا اور جب جانے کو کہتا ہے تو نہایت فراخدلی سے کہہ دیتا ہوں کہ جیسی مرضی ہو اور جس میں راحت ہو۔بڑوں کے حقِ عظمت کو ادا کرنا : فرمایا کہ میرے چھوٹے گھر میں کے والد پیر جی ظفر احمد صاحب میرے ساتھ اپنے پیر کا سا برتاؤ کرتے ہیں، لیکن قلب میں ان کی ویسی ہی عظمت ہے جیسے خسر کی ہونی چاہیے اور جیسی اپنے بڑے خسر صاحب کی تھی، لیکن پیر جی صاحب کو اس کا علم بھی نہیں، نہ مجھ کو یہ اہتمام ہے کہ ان کو اس کا علم ہو، مجھے تو اپنی تسلی کرنی ہے کہ میں ان کا حق عظمت ادا کر رہا ہوں، ان پر کوئی احسان تھوڑا ہی رکھنا ہے۔ گھر میں رات کو سوتے وقت احتیاطاً لوٹے میں پانی بھر کر رکھ لیتی ہیں، اگر کبھی مجھے پانی کے استعمال کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو میں لوٹے کو پھر بھر کر اسی جگہ رکھ دیتا ہوں تاکہ اگر ان کو ضرورت ہو تو لوٹا بھرا ہوا ہی ملے، دوبارہ ان کو بھرنا نہ پڑے۔حتی الوسع اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا سنّت ہے : فرمایا کہ ایک غیر مقلد یہاں آئے تھے، انھوں نے یہاں سے جاکر ایک صاحب سے کہا کہ ہم لوگوں میں اتباعِ سنت کا فقط دعویٰ ہی دعویٰ ہے، اتباعِ سنت تو ہم نے وہاں دیکھا، ایک کتاب کی ضرورت ہوئی تو خود اُٹھ کر کتب خانہ سے لائے، کسی سے کہا نہیں کہ لے آؤ، اپنا کام خود کیا، دوسرے کو تکلیف نہ دی۔ سبحان اللّٰہ! کیا اتباعِ سنت ہے اور کتنی تواضع ہے کہ بلا تکلف خود اُٹھ کر لائے۔ فرمایا کہ میزبان کے نوکر سے اگر کوئی چیز مانگنا ہو تو حاکمانہ لہجہ میں پانی نہیں مانگنا چاہیے، بلکہ اخلاق کے ساتھ کہنا چاہیے کہ ذرا پانی دیجیے گا، تھوڑا پانی عنایت کیجیے گا۔