انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو۔ اس کی حقیقت سمجھنے کے لیے دو مقدمے کے سمجھنے کی ضرورت ہے: ایک یہ کہ تمام سلوک کا مقصد حضرت حق میں فنا ہے، یعنی اپنی صفات کو صفاتِ حق میں فنا کردینا اور متخلق باخلاق اللہ ہونا۔ ہماری صفات کے دو درجے ہیں: ایک مبدا، ایک منتہا۔ مبدا انفعال ہوتاہے، مثلاً: ہمارے اندر رحمت وشفقت کا مادہ ہے تو اس کا ایک مبدا ہے ایک منتہا ہے۔ مبدا یہ کہ کسی کی حالت اور مصیبت کو دیکھ کر دل دکھتا ہے یہ انفعال وتأثر ہے، اور دل دکھنے کے بعد ہم نے اس شخص کے ساتھ جو ہمدردی کی، اس کی اعانت کی، یہ منتہا ہے اور فعل ہے اور یہی مقصود ہے صفتِ رحمت سے، اسی طرح خوف میں مبدا وہی تأثر وافعال ہے کہ خدا کی عظمت وجلال کے خیال سے دل پر اثرہوا رقت طاری ہوئی اور یہ منتہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی سے رک گئے، یہ فعل ہے اور یہی مقصود ہے۔ اسی طرح محبت کا مبدا یہ ہے کہ دل میں عشق کی دکھن پیدا ہو، اور محبوب کے خیال میں محو ہوجائے یہ انفعال وتأثر ہے اور منتہا یہ ہے کہ محبوب کی رضا جوئی اور خوش نودی کی طلب میں لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ تأثر وانفعال سے پاک ہے، ا س لیے حق تعالیٰ کی صفات میں مبادی نہیں ہوتے بلکہ غایات اور منتہا ہی ہوتے ہیں۔ پس جس شخص کے اوپر خوف ومحبت کی کیفیت غالب نہ ہو مگر استقامت افعال کی حاصل ہو کہ معاصی سے پوری طرح بچنے والا اور طاعات کا بجا لانے والا ہو تو اس میں صفات کے مبادی نہیں پائے گئے بلکہ صرف غایات پائے گئے اور یہ شخص متخلق باخلاق اللہ ہے، اور جس پر ان کیفیات کا غلبہ ہو اس میں اوّل مبادی پھر غایات پائے گئے تو یہ شخص اس درجہ کا متخلق باخلاق اللہ نہیں ہے۔ پس اوّل تو کامل ہے اور دوسرا اس درجہ کا کامل نہیں ہے۔وارد موافقِ شرع بشارت ہے: تحقیق : اگر کوئی وارد موافقِ شرع ہو تو وہ وسوسہ نہیں بلکہ بشارت ہے۔اعتکاف کی حالت میں دل کا گھر میں رہنا : تحقیق: اعتکاف کی حالت میں دل کے گھر میں رہنے کا تو کچھ ڈر نہیں، کیوں کہ غیر اختیاری ہے، ہاں! رکھنا نہ چاہیے (کیوں کہ یہ اختیاری ہے) اور وہ بھی جب کہ بلا ضرورت ہو، اور ضرورت سے تو بعض اوقات رکھنے کا حکم ہے، یعنی انتظام حقوقِ واجبہ یا مستحبات کے لیے۔ حضور اقدسﷺ نے تو معراج میں ’’کہ اعلی مقام ہے قرب کا‘‘ اپنا دل امت میں رکھا تھا اور ان کے مصالح کا اہتمام فرمایا تھا۔معاصی کے ساتھ کیفیاتِ نفسانیہ کا بقا دلیلِ مقبولیت نہیں : تحقیق: بعض اوقات معاصی کے ساتھ بھی بعضے احوالِ نفسانیہ باقی رہتے ہیں، جیسے وجد واستغراق، شوق وشگفتگی اور حیرت اور اس قسم کے اور کیفیت تو ان کے بقا سے دھوکے میں نہ آئے کہ میں ایسا مقبول ہوں کہ معصیت سے بھی مقبولیت میں خلل نہ پڑا، کیوں کہ یہ سب کیفیاتِ دنیا ہیں دین نہیں، اور دنیا کا عطا ہوتے رہنا علاماتِ مقبولیت سے نہیں، ان احوال کا نسبت سے کوئی تعلق نہیں اور نسبت معاصی کے ساتھ باقی نہیں رہتی۔ یہ احوال محض کیفیاتِ نفسانیہ طبعیہ ہیں، جیسے فرح وسرور کیفیاتِ طبعیہ ہیں۔ حاصل یہ کہ یہ