انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ضروری ہے، ورنہ یہ مستقل ہبہ ہوگا۔ پہلے کا عوض نہ ہوگا۔عورتوں سے چندہ لینے میں احتیاط چاہیے : ارشاد: عورتوں سے چندہ لینے والوں کو بڑی احتیاط چاہیے، کیوں کہ یہ اکثر بدون شوہر سے پوچھے شوہر ہی کے مال میں سخاوت کرتی ہیں۔انسان میں صفتِ اختیار کا ہونا دلیل کا محتاج نہیں : ارشاد: انسان میں صفتِ اختیار کا ہونا دلیل کا محتاج نہیں بلکہ یہ وجدانی امر ہے۔ ہر شخص وجدان سے اس کو محسوس کرتا ہے کہ ہاں میرے اندر اختیار ہے۔ دیکھئے مرتعش (جس کے ہاتھ میں رعشہ ہو) اور کاتب کی حرکتِ ید میں فرق بیّن ہے۔ پہلا شخص حرکت میں مجبور ہے دوسرا مجبور نہیں اور یہ ایسا فرق ہے جس کو حیوانات بھی جانتے ہیں۔ اگر آپ کتے کو لاٹھی ماریں تو وہ لاٹھی پر حملہ نہ کرے گا، بلکہ آپ پر حملہ کرے گا وہ بھی جانتا ہے کہ لاٹھی کی خطا نہیں، وہ تو مجبور ہے خطا آدمی کی ہے جو اختیار سے ہم کو ستا رہا ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تو حقیقت پر نظر رکھے کہ اپنی جان کو اپنی جان نہ سمجھے، نہ اپنے کمالات کو اپنے کمالات سمجھے، بلکہ سب کو عطا ہائے حق سمجھتا رہے اور بندوں سے معاملہ کرتے ہوئے شریعت پر نظر رکھے۔سالکین کی طلبِ سہولت امانت (اختیار) کے خلاف ہے : ارشاد: آج کل بعض سالکین کو سہولت کی بہت تلاش ہے جس کی وجہ صرف راحت طلبی ہے، صاحبو! راحت کی جگہ تو عالمِ آخرت ہے اور وہاں بھی جو راحت حاصل ہوگی وہ بھی دنیا کی جہد کا ثمرہ ہے ہم کو شرم نہیں آتی کہ دنیا مردار کے لیے تو اتنی عمر برباد کریں اور مشقت برداشت کریں اور طلبِ خدا کے لیے یہ چاہیں کہ تھوڑی ہی مدّت میں کامیابی ہو جاوے علاوہ اس کے جس امانت سے تمام عالم گھبرا گیا وہ تکلیف ہی ہے جس سے مراد عمل مع الاختیار ہے حاصل غرضِ امانت کا یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے یہ فرما دیا تھا کہ ہمارے کچھ احکامِ تشریعیہ ہیں۔ ان کا مکلف بالاختیار کون ہوتا ہے۔ یعنی جو شحص ان کا تحمل کرے گا اس کو صفت اختیار مع عقل کے عطا کی جاوے گی، یعنی اس کی قوتِ ارادیہ ان احکام پر عمل کرنے کے لیے مجبور نہ ہوگی۔ بلکہ عمل وعدمِ عمل دونوں پر قدرت دی جائے گی۔ پھر جو اپنے اختیار سے احکام کو بجا لادے گا اس کو مقرّب بنا لیا جائے گا اور جو اپنے اختیار سے احکام میں کوتاہی کرے گا اس کو مطرود کر دیا جائے گا۔ تمام مخلوق ڈرگئی، انسان اس کے لیے آمادہ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو مکلف بنا دیا، یعنی اس کو صفت اختیار مع عقل کے عطا کردی گئی۔ باقی مخلوقات میں یہ صفت اختیار وعقل نہیں ہے وہ جن احکامِ تکوینیہ یا عبادت کو بجا لاتے ہیں وہ ان کے لیے طبعی ہیں، یعنی ان کی قوتِ ارادیہ اس کے خلاف کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی، بخلاف انسان کے کہ جن احکام کا یہ مکلف ہے وہ اس کے لیے طبعی نہیں، بلکہ اس کی قوتِ ارادیہ عمل وعدم عمل دونوں کی طرف مائل ہوتی ہے اب اس کی تکلیف کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ یہ اپنے اختیار سے ایک جانب کو ترجیح دے،