انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کنارو بوس سے دونا ہوا عشق مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی محبوب کے تصور کوبلا واسطہ دفع کرنا یہ بھی جلبِ تصور ہے: تہذیب: نظرِ بد سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی بد صورت بدشکل کا مراقبہ کرو چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی بدشکل قابل، تصرف مراقبہ کے لیے نہ ملے تو پھر اس محبوب ہی کو بد شکل تصور کرو، یعنی یوں خیال کرو کہ یہ ایک دن مرے گا اور اس کا چہرہ خاک میں مل جائے گا اس میں خون پیپ ناک اور آنکھ کے راستہ سے بہے گا، اس کے بدن میں کیڑے پڑ جائیں گے، تھوڑی دیر اس کی اس حالت کا مراقبہ کرو اس سے بھی نفع ہوگا اور خیال ہٹانے کی یہ صورت نافع نہیں کہ تم براہ راست اس کے حسن کے تصور کو دفع کرنے کا قصد کرو کیوںکہ اس میں تو پھر استحضار ہوگا۔ حسن کا سلب بھی جلب ہوجائے گا۔ خلاصہ یہ کہ محبوب کے تصور کو بلا واسطہ دفع کرنا یہ بھی جلبِ تصور ہے۔ عشق کا منشا بطالت وبے کاری وبے فکری ہے: تہذیب: عشق بطالت سے ہوتاہے، اطبا نے اس کی تصریح کی ہے۔ اسی لیے طلبا کو عشق زیادہ ہوتاہے، کیوں کہ یہ بہت بے فکر ہیں، پس عشق کا علاج بطالت وبے کاری وبے فکری کا دور کرنا ہے۔ تضعیفِ شہوت کا سالم ومسنون علاج کثرتِ صوم ہے: تہذیب: بعض دفعہ قلتِ شہوت کا منشا کثافتِ اختلاط ہوتاہے (چناںچہ جس پر شہوت کا زیادہ غلبہ ہو وہ اس وقت خوب پیٹ تن کر کھانا کھالیوے، تو شہوت افسردہ ہوجائے گی، ایسی حالت میں چوں کہ روزہ سے اخلاط میں لطافت پید اہوگی تو اوّل اوّل شہوت بڑھے گی مگر برابر روزہ رکھتا جائے جیسا کہ فعلیہ الصوم سے دلالت ہوتی ہے، تو کثرتِ صوم کا انجام ضعفِ شہوت ہی ہوگا۔ چناںچہ اخیر حصہ رمضان میں ہر شخص کو ضعف معلوم ہوتاہے گو افطار وسحر میں اس نے کتنا ہی پیٹ بھر کر کھایا ہو، کیوں کہ میرے نزدیک سببِ ضعف تبدیلِ وقت ہے تقلیلِ غذا سے ضعف نہیں ہوتا۔اضطرار مخمصہ ونظر الی الاجنبیہ کا فرق : تہذیب: اضطرار مخمصہ میں موت کا اندیشہ ہے اور حیات کا بقا مطلوب ہے، کیوں کہ وہ معراج (زینہ) ترقی ہے اور حیاتِ ناسوتیہ ہی سے روح کی ترقی ہوتی ہے، کیوں کہ مدار ترقی اعمال ہیں اور روح مجرد سے صدور بعض اعمال کا نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر یہ وجہ نہ ہوتی تو پھر جنت سے دنیا میں ہمارے بھیجے جانے کی کیا ضرورت تھی برعکس اس کے نظر الی الاجنبیہ سے بچنے میں موت کا خوف نہیں، بلکہ غضِ بصر میں زیادہ حیات ہے۔ حدیث میں وعدہ ہے کہ جو شخص تقاضائے نظر کے وقت نگاہ نیچی کرلے اس کو حلاوتِ ایمان نصیب ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایک طبعی