انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رعایت مقدم ہے اپنے معمولات کے رعایت سے۔(۱۸) حضرت والا کی رائے متعلق احکامِ جمعہ : مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور مجتہد فیہ میں کسی جانب قطع نہیں ہوسکتا صرف ترجیح ہوتی ہے اور وجوہِ ترجیح میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے، یہاں بھی باوجود اتحادِ منشا قولین (یعنی احتیاط) کے صورتِ احتیاط میں اختلاف ہوگیا، بعض نے جمعہ کو احتیاط سمجھا لأن فیہ التیقن ببراء ۃ الذّمۃ اور بعض نے وجوہ اشتباہ کے ضعف کی بنا پر جمعہ کو عمل کے لیے اختیار کرکے عوام کے لیے ترک ظہر کو احتیاط سمجھا ’’لأن فیہ صونا بعقائد عوام الأمۃ‘‘ اور خواص میں کسی محذور کے متحمل نہ ہونے کے سبب ان کو دونوں احتیاطوں کے جمع کرنے کا طریق بتلا دیا، یہ تنقیح ہے اختلاف کی۔ اب احقر اپنا مسلک عرض کرتا ہے کہ میں اپنے ذوق سے جو کہ مستفاد ہے کلیاتِ شرعیہ سے، عقیدہ کی احتیاط کو عمل کی احتیاط سے اہم سمجھتا ہوں لہٰذا عوام کے لیے عمل جمع کو اور علم جمع (یعنی خواص کی جمع کی اطلاع) کو خلاف احتیاط سمجھتا ہوں، اور جمع میں مانعین کی طرف سے جو شبہات ہیں، ان میں جماعتِ ظہر کے شبہہ کو بہت قوی اور اس کے جواب کو ضعیف سمجھتا ہوں اور جمعہ کا جامع جماعات ہونا تیقنِ صحتِ جمعہ کی صورت میں ہے اور جب ہر شق میں احتیاط ہی احتیاط پر عمل ہے تو ظہر کی ترک جماعت جس میں ترک واجب کا شبہ ہے کیا خلاف احتیاط نہیں؟ (۱۹) فرمایا کہ جو کہا جاتا ہے کہ بلا مجاہدہ محض تصرف کے ذریعہ سے دفعتًا حصول کمال ہو جاتا ہے، وہ کمال نہیں، بلکہ ایسے تصرف سے کچھ کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں جو مقصود نہیں، کیوں کہ ان سے قربِ الٰہی حاصل نہیں ہوتا جوکہ مقصود ہے، پھر یہ کیفیات بھی جو کہ توجہ سے پیدا ہوتی ہیں، دیرپا نہیں ہوتیں، تیسرے ایسی توجہ سے بوجہ ضعفِ قویٰ طبعیہ بعض مرتبہ کوئی ضرر جسمانی پہنچ جاتا ہے۔ (۲۰) فرمایا کہ ایسا کوئی نہیں جس کو بلا مجاہدہ حصولِ کمال ہوا ہو (إلا ما شاء اللّٰہ) لہٰذا سالک کو چاہیے کہ صبر واستقلال ویکسوئی کے ساتھ اپنے شیخ کی تعلیمات پر عمل کرتا رہے، جب وقت آئے گا تو مقامات واحوال میں سے جو کچھ اس کے لیے مناسب ہوگا، وہ خود اس کو عطا ہو جائے گا۔ (۲۱) فرمایا کہ دیکھیے کہ ایک ہی بات ہوتی ہے کہ کسی کے کلام میں کچھ اثر رکھتی ہے اور کسی کے کلام میں کچھ، اگر کوئی کسی کافر کا نام لے زبان خراب کرنا کہا جائے گا، لیکن قرآن میں بعض کفار کا نام آیا ہے، جیسے فرعون، قارون، ہامان وغیرہ تلاوت میں جب ان کا نام آتا ہے تو بجائے زبان خراب ہونے کے فی حرف دس نیکیاں ملتی ہیں۔(۲۲) قرآن کو تدبّر کے ساتھ پڑھنا چاہیے : فرمایا کہ لوگوں کو شکایت ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ قرآن گو پڑھتے ہیں مگر تدبّر کے ساتھ نہیں پڑھتے، صرف الفاظ پڑھ لیتے ہیں، اس سے معلوم ہوا