انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چاہیے، کیوں کہ آپ تو پریشانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں، یہ تو جنت میں پہنچ کر ختم ہوگی۔تحقیق اس کشف کی کہ جنت میں بھی أرنی أرنی اہلِ عشق پکاریں گے : تحقیق: ایک عاشق کا قول کشفی ہے: ’’إن في الجنان جنۃ لیس فیہا حور ولا قصور ولکن فیہا أرني أرني‘‘، گو کشف حجتِ شرعیہ نہیں، مگر ان صاحبِ کشف نے جو دلیل بیان کی ہے اس دلیل سے شبہ صحتِ کشف کا ہوسکتاہے، وہ دلیل یہ ہے کہ حسن وجمالِ حق حقیقتاً بے نہایت وغایت ہے تو اس کا عشق بھی لاتقف عند حدِ ضرور ہوگا۔ اس لیے بے چینی وپریشانی ایسے عشق کے لیے لازم ہے۔ کیوںکہ عاشقانِ مجازی کو تو وصالِ محبوب سے اس لیے چین آجاتاہے کہ ان کے محبوب کا حسن متناہی ہے وصال کے بعد جی بھر کے اس سے متمتع ہوگئے اور سکون ہوگیا اور جس کے محبوب کا حسن بے غایت ہو اس سے تو جتنا متمتع ہوگا اور نیا درجہ حسن کا ظاہر ہوگا، پھر چین وسکون کیسا ہوسکتا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ عشق ومحبوب حقیقی دنیا میں تو اس لیے لا تقف عندِ حد ہے کہ یہاں اس کی استعداد کے تمام افراد کا تقاضا پورا نہیں کیا گیا، اور جنت میں ہر فرد کے استعداد پورا ہوجائے گا، چناںچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَط اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُلاO نِالَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖج لَا یَمَسُّنَا فِیْھَا نَصَبٌ وَّلَا یَمَسُّنَا فِیْھَا لُغُوْبٌO} [الفاطر: ۳۴، ۳۵] اگر جنت میں بھی پریشانی رہی تو ایسے عشق کو لے کر کیا کریں گے! پس اس تقریر سے حسنِ حق کا محدود ہونا لازم نہیں آتا بلکہ استعدادِ طالب کا لامتناہی ہونا لازم آیا، جنت میں جس سے بالکل سکون ہوجائے گا۔جو کیفیت معصیت کے ساتھ ہو مردود ہے : تحقیق: اہلِ باطل جو بیوی سے علیحدہ رہتے ہیں اس کا منشا یہ ہے کہ بیوی کے اختلاط سے یکسوئی وغیرہ کی کیفیت میں خلل نہ آجائے حالاں کہ جو کیفیت معصیت کے ساتھ بھی مجتمع رہی ایسی کیفیت خود مردود ہے۔کیفیتِ محمودہ ومذمومہ کی تعریف : تحقیق: بعض کیفیاتِ محمودہ ومذمومہ میں تشابہ ہے۔ ان میں امتیاز کا معیار یہ ہے کہ جو کیفیت کسی گناہ کا مقدمہ ہوجائے وہ مذموم ہے ورنہ محمود ہے، یعنی محمود وہ کیفیت ہے جس سے طاعت میں ترقی اور گناہ میں کمی ہو، اگر یہ معیار سامنے نہ ہو تو پھر کیفیات تو جوگیوں کو بھی نصیب ہوجاتی ہے، کیا ان کو بھی صوفی اور ولی کہوگے!کیفیات کے مقصود نہ ہونے کی دلیل : تحقیق: دین میں مقصود وہ ہوتاہے جو بدون تحصیل کے حاصل نہ ہو، جس کا حصول صرف اختیار پر موقوف ہو، اور قرآن میں منصوص ہے کہ بعض احوال جیسے کشف مرتے ہی سب کو خود بخود حاصل ہوجائیں گے، یہاں تک کہ کفار کو بھی، چناںچہ ارشاد ہے: {وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اﷲِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ} [الزمر: ۴۷]، {فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ} [ق: ۲۲]، {اَسْمِعْ بِہِمْ وَاَبْصِرْلا} [مریم: ۳۸]۔