انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذکر وشغل کے متعلق صحبتِ شیخ کے نفع کی شرط : فرمایا کہ غالب حصّہ وقت کا ذکر وشغل کا ہونا چاہیے تب صحبت شیخ نافع ہوتی ہے اور اگر بزرگوں سے ملے جُلے تو ہمیشہ، اور کرے دھرے کچھ نہیں یا زیادہ وقت تو صحبت شیخ میں گذارے اور تھوڑا سا وقت نکال کر کچھ اُلٹا سیدھا ذکر وشغل بھی کرے تو یہ کافی نہیں۔مقدارِ ذکر کا معیار نفع : حضرت والا ذکر کے متعلق فرمایا کرتے ہیں نہ اتنی زیادہ مقدار ہو کہ بہت زیادہ تعب ہو اور نہ اتنی کم کہ کچھ تعب ہی نہ ہو، بلکہ اتنی مقدار ہونی چاہیے، جس میں تعب تو ہو لیکن جس کی مداومت قابل عمل ہو، کیوں کہ تھوڑا تعب بھی ہونا نفع کے لیے ضروری ہے تاکہ نفس کو کسی قدر مجاہدہ بھی کرنا پڑے۔ مقدار ذکر کے متعلق یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے ذمہ تو صرف اتنی ہی مقدار رکھے جس پر دوام ہو سکے، باقی جب فرصت ونشاط دیکھے تو زیادہ کرے۔ اس میں یہ مصلحت ہے کہ ناغہ کی بے برکتی اور قلق سے حفاظت رہے گی اور یہ دونوں چیزیں مُضر ہیں اور جب کبھی زیادہ کی توفیق ہوگی تو مسُرت ہوگی اور ہمت بڑھے گی۔ذکر کا طرزِ نافع : کیفیت ذکر کے متعلق فرمایا کرتے ہیں کہ جس طرز میں دلچسپی ہو وہی اختیار کرے، کیوں کہ دعا کا طرز زیادہ نافع وہی ہوتاہے جس میں زیادہ دل لگے، لیکن اس کا خاص خیال رکھے کہ قلب میں ورد کے جلدی پورا کرنے کا تقاضہ نہ پیدا ہونے دے۔ہاں !اگر کسی کا طرز ہی روانی کے ساتھ ذکر کرنے کا ہو تو اس کا مضائقہ نہیں۔ذکر کا صحیح طریق : فرمایا کہ ذکر کے وقت قلب اور زبان دونوں کو شریک رکھنا یہی طریق صحیح ہے، اگر کوئی نہایت موزوں رفتار سے چلتا ہو اور دوسرا غیر موزوں سے، تو اصل مقصود منزل پر پہنچنا ہے جو دونوں رفتار سے حاصل ہو جاتا ہے۔ آگے رہی موزونیت اس میں اور مصالح زائدہ ہیں جس پر منزل کی رسائی موقوف نہیں۔قیودِ ذکر ولطائف ستّہ کی فکر موجبِ تشویش ہے : قیود وذکر کے متعلق یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اس زمانہ کی طبائع چوں کہ ضعیف ہیں، اس لیے اکثر یہ قیود موجب تشویش وتشتت ہو جاتی ہیں، لہٰذا ان کے اہتمام میں نہ پڑے۔ اسی طرح لطائف ستّہ کی فکر میں بھی نہ پڑے کہ یہ بھی موجب تشویش ہے، اصل چیز لطیفہ قلب ہے بس ساری توجہ اسی پر رکھے۔ذکر میں توجہ کا طریق : فرمایا کہ ذکر کے دوران میں اگر بسہولت ہو سکے تو مذکور کی طرف ورنہ ذکر کی طرف توجہ رکھے۔توجہ میں زیادہ کاوش مُضر ہے معتدل توجہ کافی ہے : حضرت والا ذکر کرتے وقت تصورِ ذاتِ حق کو سارے مراقبات سے افضل وانفع بلکہ اصل مقصود قرار دیتے ہیں بشرطیکہ بسہولت ہو سکے، لیکن اس کی تاکید فرماتے رہتے ہیں کہ توجہ