انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مطلوب۔ ہر شخص کو اس کی تعداد کے موافق مجاہدات وریاضیات وکثرتِ ذکر وفکر ومراقبات حاصل ہوتے ہیں۔ پھر ان احوال وکیفیات میں بھی جو حالت اور کیفیت موافقِ سنت ہو، وہ افضل ہے اور جو سنت کے موافق نہ ہو وہ مستحسن نہیں، گو صاحبِ حال پر ملامت بھی نہیں کہ اس میں معذور ہے، اسی طرح جو کشف والہام نصوص شریعت کے خلاف نہ ہو مقبول ہے ورنہ قابلِ رد ہے۔(۳۵) وحدۃ الوجود کا غلبہ کب ہوتا ہے : جب کوئی شخص اللہ کی طلب میں مجاہدہ، ریاضت کرے گا اور ہر وقت اس کے دھیان میں رہے گا، اس پر فنا اور وحدۃ الوجود کی کیفیت کا غلبہ ضرور ہوگا، بلکہ محبوب مجازی کی محبت بھی جب زیادہ غالب ہوگی، اس میں بھی یہ کیفیتِ ظاہری ہوگی۔ چناں چہ مجنون کو لیلیٰ کی محبت میں درجۂ فنا حاصل تھا اور اس سے آگے بڑھا تو وحدۃ الوجود کی کیفیت طاری ہوگئی کہ جب کوئی پوچھتا کہ لیلیٰ کہاں ہے؟ کہتا کہ میں ہی تو لیلیٰ ہوں۔(۳۶) احسان کی تعریف اور اس کے تحصیل کا طریق : احسان ظاہر اور باطن یعنی اسلام اور ایمان کیحقیقت اور روح ہے اسی کی تکمیل اور تحصیل کا نام تصوّف ہے جو بدونِ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی متابعت کاملہ کے حاصل نہیں ہوسکتا، دوسری عبارت میں یوں سمجھیے کہ علم عمل سے مقرون ہے اور عمل اخلاق سے مقرون ہے اور اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ علم وعمل سے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مقصود ہو، بس تصوف کی حقیقت اخلاق کی تحصیل وتکمیل ہے اور بدون ترک یعنی اور قطع علایق مانعہ کے اخلاص کا وہ رتبہ حاصل نہیں ہوسکتا جس کو حدیث میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔(۱) کام میں لگا رہنا چاہیے اگرچہ ساری عمر کامیابی نہ ہو : ارشاد فرمایا کہ دین کے کام میں اگر کسی نے کوشش کی اور کامیاب بھی ہوگیا، دوسرے نے کوشش کی لیکن ناکامیاب رہا تو دونوں کو ثواب برابر ملے گا، بلکہ عجب نہیں کہ ایسے ناکامیاب کا اجر کہ جس نے کوشش میں کمی نہیں کی اس کامیاب سے بڑھ جائے۔ چناں چہ مشکوٰۃ میں حدیث ہے: عن عائشۃؓ قالت: قال رسول اللہﷺ : ’’ألماہر بالقرآن مع الکرام البررۃ، والذي یقرء القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق لہ أجران۔ متفق علیہ۔ اس کے بعد حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہم سے لگاؤ کس کو ہے، بس اس کی قدر ہے، لہٰذا کام میں لگا رہنا چاہیے اگرچہ ساری عمر کامیابی نہ ہو۔(۲) شاغلِ ذکر کیا کرے جب کوئی کام یاد آجاوے : اگر ذکر کے اندر کوئی کام ایسا یاد آجاوے جس کا انجام دینا فوراً مناسب ہو، تو دیکھنا چاہیے کہ ایسا اتفاق کبھی کبھی ہوتا ہے یا اکثر، اگر کبھی کبھی ہو تو پہلے اس کام کو کرے اس کے بعد اپنا معمول ادا کرے اور اگر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ذکر کرنے بیٹھتا ہے تب ہی کوئی نہ کوئی کام یاد آتا ہے تو ایسی حالت میں ہرگز ذکر کو ترک نہ کرے، بلکہ اس کو وسوسہ سمجھے اور اپنا ورد پورا کرنے کے بعد اس کام کو انجام دے لے۔