انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
التدبیر المباح کو ترک کردے اور تفویض یہ کہ اس کے بعد اگر تدبیر میں ناکامی ہو یا وہ واقعہ تدبیر سے تعلق ہی نہ رکھتا ہو، جیسے غیر اختیاری مصائب تو حق تعالیٰ پر اعتراض نہ کرے۔ حقیقت تفویض کی توکل کا اعلیٰ درجہ ہے اور اس درجہ علیا کا اثر رضا ہے۔اصلی مطلوب دُعا : فرمایا کہ دعا سے اصل مطلوب حق تعالیٰ کی توجہ خاص ہے اور عبد نے جو طریق معیّن اختیار کیا ہے یہ مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود کا محض ایک طریق ہے، جیسے اس مقصود کے اور بھی طریق ہیں۔ لہٰذا وہ جس طریق سے توجہ خاص فرماویں وہ اجابت دعا ہی ہے، خواہ وہ عبد کا مجوزہ طریق ہو یا حق تعالیٰ کا مجوزہ طریق ہو۔ ف: جو شخص صرف حاجت پورا کرنے کو نعمت سمجھتا ہے وہ محبوب ہے، بلکہ اصل نعمت مولیٰ کی تو جہاور التفات اور اسکا جواب وخطاب ہے اور اللہ تعالیٰ سے کلام وسلام اور سوال وجواب اور رضا ہی کا نام تو وصول ہے۔ ہاں! وصول کے درجات میں کسی کو اعلیٰ درجہ حاصل ہے اور کسی کو ادنیٰ، مگر مومن وصول سے محروم نہ رہے گا یہی وہ ولایتِ عامہ ہے جو ہر مسلمان کو حاصل ہے {اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا} [القبرۃ:۲۵۷]۔کبر کی حقیقت اور ماتحتوں کے ساتھ وقوع کبر کا علاج : ایک صاحب نے کبر کی حقیقت کے متعلق سوال کیا اور یہ بھی لکھا کہ اپنے ماتحتوں پر اگر زیادتی ہو جائے تو ان سے معافی مانگنے میں مصالح فوت ہوتے ہیں اس کا جواب حسب ذیل ارقام فرمایا۔ کبر کی حقیقت ہے اپنے کو دوسرے سے بڑا سمجھنا اس طرح سے کہ اس دوسرے کو حقیر سمجھے، پھر اس بڑے سمجھنے میں درجہ ہیں: ایک بے اختیار بڑائی کا آنا اور ایک بالاختیار ایسا خیال کرنا، پھر اول میں دو درجے ہیں: ایک تو یہ کہ اس خیال کے مقتضا پر عمل نہ کرنا یہ مذموم نہیں۔ دوسرے اس پر عمل کرنا یہ مذموم ومعصیت ہے۔ اسی طرح قصداً بڑا سمجھنا یہ بھی علی الاطلاق مذموم ہے، گو اس کے مقتضا پر عمل بھی نہ ہو۔ امر ثانی کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم صریح الفاظ سے معافی مانگیں گے تو یہ گستاخ ہوکر زیادہ نا فرمانی کرے گا۔ بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ شرمندہ ہوگا۔ یہ اس وقت تک عذر ہے جب اس سے تعلق رکھنا چاہیں۔ ان صورتوں میں تو صرف اس کو خوش کردیا امید ہے کہ قائم مقام معافی کے ہوجائے گا اور اگر اس سے تعلق ہی رکھنا نہیں مثلاً: ملازم کو موقوف کردیا یا وہ خود چھوڑ کر جانے لگا۔ اس وقت ضروری ہے کہ زیادتی ہوجانے کی صورت میں اس سے صریح معافی مانگی جاوے، کیوں کہ یہاں دونوں عذر نہیں، اس میں اگر رکاوٹ ہو تو میرے نزدیک اس کا سبب ضرور کبر ہے، گو اپنے کو بڑا نہ سمجھے، لیکن کبر کے مقتضا پر عمل تو ہوا غایت سے، غایت کبر اعتقادی نہ ہوگا، مگر کبرِ عملی ضرور ہے اور اگر کبر کی تقسیم کو کوئی قبول نہ کرے