انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لگاتے، بلکہ جن مستعمل ٹکٹوں پر مہر کا نشان بہت کم یا بالکل نہیں ہوتا ان کو فوراً چاک فرمادیتے ہیں، تاکہ کوئی آدمی اسے نکال کر مکرر استعمال نہ کرسکے ۔مشورہ کے جواز کی مصلحت : فرمایا کہ آجکل لوگ عموماً مشورہ کی حقیقت ہی نہیں سمجھتے اور اس کے مُضر ہونے پر یا مفید ہونے پر خود مشیر کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں، حالاں کہ مشورہ تو محض دوسرے کی اعانت کے لیے ہوا کرتا ہے کہ رائے قائم کرنے میں سہولت ہو ۔مشورہ کے متعلق غلو فی الاعتقاد : فرمایا کہ آجکل مشورہ دینے میں یہ بھی خرابی ہے کہ معتقدین بوجہ غلو فی الاعتقاد مشورہ کے متعلق یہ غلط عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیخ کے قلب میں مُضر یا غلط بات آہی نہیں سکتی اور اس میں یقینی خیر سمجھتے ہیں اور اسکے خلاف کرنے میں یقینی ضرر سمجھتے ہیں۔ یہ سب غلو فی الاعتقاد ہے، اس کی اصلاح ضروری ہے ۔مشورہ میں طرز حضرت والا : اگر مواقع خصوصیت میں حضرت والا کوئی مشورہ دیتے بھی ہیں تو اکثر اس عنوان سے کہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو یہ کرتا ۔عملیات کے نا پسندیدگی کے وجوہ : حضرت والا تعویذ گنڈوں کے شغل کو بہت ہی نا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ اول تو اس میں عوام کا اور دنیاداروں کا بہت ہجوم ہوجاتا ہے جس سے دینی ضرر اور تضیّع اوقات کا قوی اندیشہ ہے۔ دوسرے اس کے متعلق لوگوں نے عقیدہ میں بہت غلو کر رکھا ہے اور اس کو اس کے درجہ سے بھی آگے بڑھا رکھا ہے۔ چناں چہ اس کے برابر نہ دعا کو مؤثر سمجھتے ہیں، نہ ان تدابیر کو جو ایسے مقاصد کے لیے موضوع ہیں اور اگر اثر ہوجاوے تو اس کو بزرگی کی علامت سمجھتے ہیں، حالاں کہ عملیات کا اثر زیادہ تر قوتِ خیالیہ کا ثمرہ ہے ۔وسعتِ رزق کا وظیفہ : ایک صاحب نے وسعت رزق کے لیے کوئی وظیفہ پوچھا۔ فرمایا کہ پانچوں نمازوں کے بعد یا باسطُ بہتّر بار پڑھ لیا کرو ۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر اور کوئی وظیفہ اسی مقصد کے لیے پوچھا۔ فرمایاکہ دواؤں میں تو یہ بات ہوتی ہے کہ اگر ایک دوا نافع نہ ہو تو دوسری دوا نافع ہوجاتی ہے، لیکن دعاؤں میں یہ تفصیل نہیں وہی پہلی دعا کافی ہے، اس کو معمول رکھا جاوے، جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا قبول فرمالیں گے ۔تشویشات کاعلاج وظیفہ نہیں : فرمایا کہ تشویشات کا علاج وظیفہ پڑھنا نہیں بلکہ تدابیر ہیں اور ہر تشویش کی تدبیر جدا ہے، جب کوئی خاص تشویش پیش آئے اس کے متعلق دریافت کیا جاوے۔کسی پر کسی قسم کا بار ڈالنا پسند نہیں : چوں کہ حضرت والا اس امر کا انتہا درجہ کا لحاظ رکھتے ہیں کہ کسی پر ایسا بار نہ ڈالا جاوے جو اس کے ذمہ نہ ہو، اس لیے خود بھی کسی کا بے جا طور پر ڈالا ہوا بار اٹھانا حضرت کا معمول نہیں ۔