انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
چناںچہ مولانا محمود الحسن صاحب ؒ کا ارشاد ہے کہ عمر بھر پڑھنے پڑھانے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہم جہلِ مرکب سے جہلِ بسیط میں آگئے۔غیر مقلدوں کے خاص امراض : ارشاد: غیر مقلدوں میں یہ دو مرض زیادہ غالب ہیں: ایک بدگمانی، دوسرے بد زبانی، اسی وجہ سے وہ ائمہ کو حدیث کا مخالف سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک تاویل وقیاس کے معنی ہی مخالفتِ حدیث ہیں گو وہ مستند الی الدلیل ہی ہوں اور اگر ان ہی کے اصول کو مانا جائے تو من تراک الصلاۃ متعمدًا فقد کفر اور لا صلاۃ لمن لم یقرء بأم الکتاب ان حدیثوں میں کوئی تاویل نہ ہوگی اور سارے حنفی تارکِ صلوٰۃ ہوئے اور تارکِ صلوٰۃ کافر ہے، تو سب حنفی کافر ہوئے نعوذ باللّٰہ من ہذا الجہل۔مشورہ کی برکت : ارشاد: اگر بڑا اپنے چھوٹوں سے مشورہ کیا کرے تو ان شاء اللہ غلطیوں سے محفوظ رہے گا۔ چہ جائیکہ چھوٹا اپنے بڑوں سے کرے، وہ تو بدرجۂ اولیٰ محفوظ ہوگا۔افعالِ مذمومہ کا منشا جس قدر زیادہ خبیث ہوگا اسی قدر افعال کا ذم بڑھ جائے گا : ارشاد: کفار میں ترکِ صلوٰۃ کا منشا کفر اور مسلمان میں اس کا منشا کسل ہے اس لیے ترکِ صلوٰۃ میں وہ کافر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کفار میں عدمِ اطعام کا منشا انکارِ جزا واجر ہے اور مسلمان میں بخل وطمع ۔ جیسا کہ افعالِ حسنہ کفار میںبھی ہوتے ہیں مگر ان کا منشا ایمان نہیں، اس لیے گو وہ دنیا میں ممدوح ہیں اور دنیا ہی میں ان کو ان پر اجر بھی مل جاتا ہے مگر آخرت میں مقبول نہیں اور اگر وہی افعال مسلمان سے صادر ہوں تو احسن ہیں کیوں کہ ان کا منشا بھی حسن ہے، پس افعالِ مذمومہ جو کافروں سے صادر ہوتے ہیں، وہ تو کریلا اور نیم چڑھا کے مصداق ہیں کہ فعل بھی مذموم اور منشا بھی خبیث۔ارضائے خلق ایک مرض ہے : ارشاد: ارضائے خلق بھی ایک مرض ہے، گو کفر ونفاق کے ساتھ نہ ہو۔مجاہدہ کا فائدہ اور ضرورت : ارشاد: شیخ کی تصدیق کے بعد اس کی ضرورت رہتی ہے کہ نفس کا امتحان کرتا رہے، بے فکر اور مطمئن نہ ہو جائے کیوں کہ مجاہدہ وغیرہ سے نفس شائستہ تو ہو جاتا ہے مگر شائستہ ہو جانے کے یہ معنی نہیں کہ کبھی شرارت ہی نہ کرے، آخر شائستہ گھوڑا بھی کبھی شرارت اور شوخی کیا کرتا ہے، ہاں مجاہدہ کا فائدہ یہ ہے کہ نفس کی شرارت پہلے سے کم ہو جاتی ہے اور اگر کبھی شرارت کرتا ہے تو ذرا سے اشارہ میں سیدھا ہو جاتا ہے۔فناء کی حقیقت : ارشاد: فنا کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اپنے ارادہ اور وتجویزِ کو فنا کر دے، یعنی اپنے ارادہ اور تجویز کو ارادہ تجویز حق کے تابع کر دے اور فنائے ارادہ سے مطلق ارادہ کا فنا کرنا نہیں ہے بلکہ اس ارادہ کا فنا کرنا مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو یعنی جو ارادۂ حق کے خلاف اور تجویزِ حق کے مزاحِم ہو۔