انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غذائے جسمانی کی کثرت مضر ہے اور غذا میں ہر ایک کا اوسط جدا ہے اور کھانے سے اصل مقصود جمعیتِ قلب ہے، اور اس کی دلیل : تہذیب: غذائے جسمانی کی کثرت سے غذائے روحانی یعنی ذکر اللہ کم ہوجاتاہے، شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں: تہی از حکمتی بعلت آن کہ پر از طعام تابینی اس لیے سالک کو غذائے جسمانی میں کثرت نہ چاہیے بلکہ توسط کا لحاظ رکھنا چاہیے، مگر یہ ضرور ہے کہ سب کا اوسط ایک نہیں ہے بلکہ ہر شخص کا اوسط مختلف ہے اور اوسط سے تجاوز کرنا اور زیادہ کھانا برا ہے۔ اسی طرح اوسط سے کم کھانا بھی مضر ہے۔ ایک ضرر تو جسمانی ہے کہ غذا بہت کم کرنے سے ضعف لاحق ہوجاتاہے اور کام نہیں ہوسکتا اور ایک ضرر مقصود سلوک کا ہے وہ یہ کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ تشبہ بالملائکہ حاصل کرے اور تشبہ بالملائکہ اس شخص کو حاصل ہوتاہے جو نہ شبع سے بدمست ہو، نہ جوع سے پریشان ہو بلکہ معتدل حالات میں رہ کرطمانینت وجمعیت قلب سے متصف ہو، بس کھانے سے اصل مقصود جمعیت قلب ہے جمعیت نہ بہت کھانا مطلوب ہے نہ کم کھانا۔ دلیل اس کی یہ ہے: إذا حضر العَشاء والعِشاء فابدء وا بالعَشاء۔ فقہاء نے کھانے کی یہاں تک رعایت کی ہے کہ اگر کھانا ٹھنڈا ہونے سے اس کی لذت زائل ہوجانے کا اندیشہ ہو جب بھی نماز کو مؤخر کردینا جائز ہے، منشا اس کا وہی تحصیل جمعیتِ قلب ہے کہ بار بار یہ خیال نہ آئے کہ نماز جلدی پڑھوں تاکہ کھانا ٹھنڈا نہ ہوجائے۔آج کل تقلیلِ غذا مضر ہے : تہذیب: عبادت میں نشاط وسرور صحت وقوت ہی سے ہوتاہے اور تجربہ ہے کہ آج کل تقلیلِ غذا سے صحت برباد ہوجاتی ہے، خاتمہ کرکے نماز پڑھنے سے انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھیں گی زبان وقلب سے کچھ نہ نکلے گا۔وجہ عدم اتباع صوفیہ سابقین در تقلیلِ غذا : تہذیب: پہلے صوفیہ سے جو تقلیلِ غذا کے واقعات منقول ہیں آج کل ان پر عمل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ان حضرات میں قوت زیادہ تھی۔ ان کو غذا کم کرنے سے بھی جمعیت قلبِ فوت نہ ہوتی تھی کیوں کہ ان کی قوت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ان سے بعض اشغال ایسے منقول ہیں جو آج کل کوئی کرے تو مر ہی جائے۔ چناںچہ ایک شغل صلاۃِ معکوس کا ہے اور اس کو اصطلاحاً ’’صلوۃ‘‘ کہہ دیا گیاہے ورنہ وہ نماز نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ الٹا لٹک کر شغل کرتے ہیں۔