انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ اثر کے لیے صرف شئی نافع کا وجود کافی نہیں، بلکہ وجود مع الشرائط ہونا چاہیے۔ (۲۳) ہمارے اعمال من کل الوجوہ ہمارے قدرت میں نہیں، صرف آلات ہمارے اختیار میں ہیں، پس ہمارے اعمال بھی جو موقوف ہیں آلات پر من کل الوجوہ ہمارے قدرت میں نہ ہوں گے۔(۲۴) ہر علم کا معلوم جدا ہوتا ہے : فرمایا کہ علم کا شرف معلوم کے شرف پر موقوف ہے اور معلوم اس کو کہتے ہیں جس کے حالات اس علم میں بیان کیے جاویں اور ہر علم کا معلوم جدا ہوتا ہے۔ جس علم کا معلوم جس درجہ میں ہے اسی درجہ میں علم بھی ہوتا ہے مثلًا: علمِ فلاحت کا معلوم زراعت یعنی کھیتی کرنا ہے اور کناسی کا معلوم پاخانہ ہے، جو نسبت ان دونوں معلوموں میں ہے، یعنی کھیتی اور پاخانہ میں وہی نسبت ان کے علموں میں بھی ہوگی، ظاہر ہے کہ پاخانہ نجس اور ارذل چیز ہے اور زراعت صاف ستھری اور ذی شرف چیز ہے، لہٰذا علم کناسی ارذل ہوگا اور علم فلاحت اشرف اور علم کناسی علم فلاحت کے سامنے علم کہلانے کا مستحق بھی نہ ہوگا۔ اسی طرح علم دین کا معلوم حق تعالیٰ کی ذات وصفات اور احکام ہیں، تمام علمِ دین کا حاصل یہی ہے اور دیگر تمام علوم کا معلوم دنیا یا ماسوی اللہ ہے، پس جو نسبت دنیا یا ماسوسی اللہ کو حق تعالیٰ کے ساتھ ہے، وہی نسبت علوم دنیویہ کو ہوگی علم دین کے ساتھ اور اس نسبت کے متعلق بجز اس کے کیا کہا جاسکتا ہے ؎ چہ نسبت خاک را عالم پاک حق تعالیٰ کی ذات وصفات کو تو کسی چیز کے ساتھ کچھ نسبت نہیں دی جاسکتی، وہ باقی اور سب فانی، وہ زندہ اور سب مردہ، وہ غنی اور سب محتاج، وہ موجود اور سب چیزیں معدوم {کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗط} [القصص: ۸۸] غرض دونوں چیزوں میں کوئی … نسبت نہیں قرار دی جاسکتی، سوائے اس کے کہ علم دین پر موجود کا اطلاق کیا جاوے اور دیگر علوم پر معدوم کا۔ اب میرا دعویٰ قریب الفہم ہوگیا ہوگا کہ علوم دین کے سامنے دیگر علوم علم کہلانے ہی کے مستحق نہیں، مقابلہ تو کیا کیا جاوے علوم دنیا کو علم مت کہو، فن کہو، پیشہ کہو، حرفت کہو۔ (۲۵) جو چیزیں مفید ہوں، ان کے سیکھنے کی اجازت ہے، لیکن موجب فضیلت اور جزو دین نہ کہو، دیکھیے پڑوسی کے بھی حقوق ہوتے ہیں جن کو سب دنیا مانتی ہے، لیکن اس بات کو کوئی عقل مند جائز نہیں رکھتا، نہ شریعت یہ تعلیم دیتی ہے کہ اس کو باپ بنالو، اس کو میراث دو، ہاں! یہ حکم ضرور ہے کہ اس کا ہر بات میں جائز لحاظ کرو اور قدر کرو، اس کو احتیاج ہو، اس کی مدد کرو، لیکن اسی حد رکھو جو پڑوس کے لیے مناسب ہے ذوی القربیٰ پر مقدم نہ کرو، اسی طرح ان تمام چیزوں کو جو مفید ہیں، سیکھنے کی اجازت ہے بشرطیکہ حدود کے اندر ہوں، لیکن ان کو کوئی امرِ شرعی یا باعثِ فضیلت اور جزوِ دین مت