انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلوک جذب سے مقدم ہوتا ہے : ارشاد: مقتضائے حکمت یہی ہے کہ سلوک جذب سے مقدم ہوتاکہ جذب کا تحمل ہو جاوے۔مجذوب گو مقبول مگر کامل نہیں : ارشاد: مجذوب گومقبول ہیں مگر کامل نہیں، کیوں کہ وہ اعمال سے محروم ہیں اور ترقی اعمال ہی سے ہوتی ہے، ورنہ ارواح کو عالمِ ارواح سے عالمِ اجسام میں نہ بھیجا جاتا، کیوں کہ عالمِ ارواح میں ارواح حاملِ احوال تھیں، مگر حامل اعمال نہ تھیں۔ چناں چہ ارواح میں محبت اس درجہ تھی کہ اس محبت ہی کی وجہ سے حملِ امانت پر آمادہ ہو گئیں اس کا منشا محبت وعشق ہی تھا۔ارواح کے عالمِ اجسام میں بھیجے جانے کی حکمت !: ارشاد: ارواح کو عالمِ جسام میں بھیجنے سے مقصود قربِ خاص ہے، یعنی وہ قرب جو اعمال سے حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ بہت سے اعمال وہاں یعنی عالمِ ارواح میں ممکن نہ تھے، کیوں کہ بعض اعمال کا تعلق جسد سے ہے، مثلاً: روزہ کیسے رکھا جاتا وہاں بھوک ہی نہ تھی، حج کیسے ہوتا وہاں مال ہی نہ تھا، اور مصائب پر صبر کیسے ہوتا وہاں بیماری اور موت ہی نہ تھی، اس لیے حکمتِ حق مقتضِی ہوئی کہ ارواح کو عالمِ اجسام میں بھیجا جاوے۔نماز میں ہمارے اور حضور ﷺ کے سہو کی علّت : ارشاد: نماز میں سہوِ نبوی کی علت بھی عدمِ استحضار افعالِ صلوٰۃ ہے، لیکن ہماری عدمِ توجہ الی الصلوٰۃ کا منشا تو یہ ہے کہ ہم کو ایسی چیز کی طرف توجہ ہوتی ہے جو نماز سے ادنیٰ ہے یعنی دنیا اور حضور ﷺ کی عدمِ توجہ الیٰ الصلوٰۃ کا منشا یہ ہے کہ آپ کو ایسی چیز کی طرف توجہ ہوتی تھی جو نماز سے اعلیٰ ہے، یعنی ذات حق۔ خوب سمجھ لو۔حق تعالیٰ ہم کو راحت دینا چاہتے ہیں : ارشاد: مصائب میں إنا للّٰہ کی تعلیم بتلارہی ہے کہ حق تعالیٰ ہم کو راحت دینا چاہتے ہیں اور پریشانی میں رکھنا نہیں چاہتے۔ غرض یہ کہ احکام سے، معاملات سے، صفاتِ رحمت اور شفقت ورافت کے غلبہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے آسانی چاہتے ہیں۔شِقِ اَہْون کے اختیار میں عبدیت کا اظہار ہے کہ میں عاجز ہوں : ارشاد: رسولِ مقبولﷺ ہمیشہ آسان صورت اختیار فرماتے تھے جب دو باتوں کا اختیار دیا جاتا ہے، اس میں ایک لطیف حکمت یہ ہے کہ حضور ﷺ میں شانِ عبدیت کا بہت غلبہ تھا اور یہی آپ کا سب سے بڑا کمال تھا اور قوی شق کے اختیار کرنے میں گو یاقوت کا دعویٰ ہے اور شقِ اَہْون کے اختیار کرنے میں عبدیت کا اظہار ہے کہ میں عاجز ہوں۔حکیم ہونے کا معیار : ارشاد: شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے حکیم کا معیار یہ لکھا ہے کہ صوفی بھی ہو، فقیہ بھی ہو، محدث بھی ہو۔