انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کثرتِ ذکر واصلاحِ اعمال رکن طریق ہیں : ارشاد: اس طریق میں دو چیزیں ہیں: کثرتِ ذکر اور اصلاحِ اعمال۔ سو کثرتِ ذکر تو حالتِ طالب علمی میں مناسب نہیں اور جو مقصود ہے کثرتِ ذکر سے وہ ان کو مشغولی علم سے حاصل ہوجاتاہے بشرط تقوی۔ باقی رہا اصلاح اعمال وہ ہر حال میں فرض ہے اور طالب علمی کی حالت بھی اس سے مستثنی نہیں، سو اس کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے۔ اس کی ترتیب یہ ہے کہ اوّل قصد السبیل کو دوبار بغور مطالعہ کرکے اس سے جو حاصل طریق کا ذہن میں آوے اس سے اطلاع دے، پھر طریقہ اصلاح کا پوچھے۔تبدیل معمولات میں تعجیل مناسب نہیں : ارشاد: مدت کے بعد معمول میں دوام کی برکت پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے تبدیل تعجیل نہ کی جائے۔دُرود کا حکم : ارشاد: حضور کانام سن کر صلی اللہ علیہ وسلم کہنا ایک مجلس میں ایک ہی بار فرض ہے اس کے بعد پچاس دفعہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام مبارک زبان پر آئے یا کان میں پڑے تو بار بار درود فرض نہیں۔ ہاں! محبت کا مقتضا یہ ہے کہ ہر بار صلی اللہ علیہ وسلم کہے۔درود اپنے جذبات کے مطابق ہے : ارشاد: حضور محسن ہیں، اور سب سے بڑے محسن ہیں یہ جان کر خود بخود تقاضا ہوگا کہ حضور کے احسان کا بدلہ کریں جس کا اقل درجہ یہ ہے کہ کم از کم آپ کو دعا دیں۔ پس حضورﷺ پر درود بھیجنے میں ہم حضورﷺ پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ اپنے جذبہ شکر کو پورا کرتے ہیں مگر اس پر ثواب کا بھی وعدہ ہے، تاکہ ثواب کو سن کر اور زیادہ سہولت ہوجائے۔درود حق اللہ اور حق العبد دونوں ہے : ارشاد: درود جیسا حق اللہ ہے ویسا ہی حق العبد بھی ہے۔ اسی واسطے اس میں کوتاہی کرنے کا گناہ صرف توبہ کرنے سے معاف نہ ہوگا۔ بلکہ اس کی تلافی توبہ کے ساتھ حضور کو خوش کرنے سے ہوگی، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کوتاہی ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے توبہ بھی کرے اور آیندہ درود کی خوب کثرت کرے یہاں تک کہ دل گواہی دے کہ حضور ﷺ خوش ہوگئے ہوں گے۔درود ایسی طاعت ہے جو کبھی ردّ نہیں ہوتی : ارشاد: درود ایسی طاعت ہے جو کبھی ردّ نہیں ہوتی کیوں کہ یہ حضور ﷺ کے لیے درخواستِ رحمت ہے، اور حضور حق تعالیٰ کے محبوب ہیں اور محبوب کے لیے جو درخواست کی جاتی ہے وہ رد نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم بادشاہ سے شاہزادہ کے متعلق ایسی بات کی سفارش کریں جو بادشاہ خود اس کے لیے کرنے والا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی سفارش کیوں ردّ ہوگی۔علامت مقبولیتِ ذکر : ارشاد: ذکر اللہ سے اگر شوق میں ترقی اور حبّ الہی میں زیادتی ہو تو سمجھ لو کہ ذکر مقبول ہے۔