انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہہ سکتے ہیں کہ راہ کو منزل بنا دیا البتہ اگر بے اصول چل کر اس طریق کو خود ہی دشوار کر لیا جاوے تو یہ طریق کا نقص نہیں بلکہ چلنے والے کا بے ڈھنگا پن ہے ؎ جو آسان سمجھو تو ہے عشق آساں جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں فرمایا کہ راستہ تو بالکل صاف اور ہموار ہے، لیکن لوگ خود ہی اس کو اپنے سوئِ استعمال اور اوہام سے دشوار کرلیتے ہیں اور خود اپنے ہاتھوں پریشانیوںمیں پڑتے ہیں۔ چناں چہ ایک مولوی صاحب جو بڑے عالم فاضل اور فہیم شخص ہیں، وہ بھی اس پریشانی میں مبتلا تھے کہ اب تک تہجد کے وقت بلا الارم(جگانے والی گھڑی) آنکھ ہی نہیں کھلتی، افسوس! کہ ابھی تک ان خارجی چیزوں کی اختیاج باقی ہے، اب تک قلب میں اتنا بھی تقاضہ پیدا نہیں ہوا کہ الارم کی حاجت نہ رہے اور خود بہ خود تہجد کے وقت آنکھ کھل جایا کرے۔ حضرت والا نے ان کی تسلی کی کہ آخر کس کس خارجی چیز کی احتیاج سے، بچوگے، کیوں کہ ایک الارم ہی کیا سینکڑوں خارجی چیزوں کی احتیاج ہے، لباس کی احتیاج ہے، مکان کی احتیاج ہے اور سینکڑوں ضروریات زندگی کی احتیاج ہے اور یہ سب خارجی چیزیں ہیں، ان سب چیزوں سے بچو۔ جب اتنی ساری خارجی چیزوں کی احتیاج سے نہیں بچ سکتے تو ایک الارم کی احتیاج بھی سہی۔ کس فکر میںپڑے۔ جب خود اللہ میاں ہی نے ہمیں اپنی نعمتوں کا محتاج بنایا ہے تو پھر ہم ان نعمتوں سے کیوں استغنا کی تمنّا کریں ؎ گر طمع خواہد زمن سلطانِ دیں خاک بر فرقِ قناعت بعد ازیںعیوبِ نفس کے اصلاح کا طریقہ : ایک سالک کو تحریر فرمایا کہ اپنے نفس کی ہر وقت نگرانی رکھیں اور عیوب نفس کے اصلاح کے لیے استحضار وہمت سے برابر کام لیتے رہیں اور گو شروع میں قدرے تعب ہو، لیکن تکرارِ مخالفت نفس سے پھر