انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شیخ کے خادم بننے کا شرف : ان ہی صاحب نے لکھا کہ میں اس قابل نہیں کہ حضور کا خادم بننے کا شرف حاصل کرسکوں۔ تحریر فرمایا: میں تو مخدوم بنانے کو تیار ہوں، مگر مناسبت جو شرطِ طریق ہے میرے اختیار سے خارج ہے۔امیر وغربا کی ملاقات کا طرز : فرمایا کہ غربا وامرا کی ملاقات میں دل جوئی کی رعایت تو امر مشترک ہے مگر کیفیت دل جوئی کی ہر شخص کی جُدا ہے، اس کی حالت وطبیعت وعادت کے تفاوت سے، یعنی امرا کی مجموعی حالت طبیعت وعادت کی ایسی ہے کہ جب تک زیادہ توجہ ان کی طرف نہ کی جاوے وہ خوش نہیں ہوتے اور غربا تھوڑی توجہ سے راضی ہو جاتے ہیں، اس لیے دونوں کی دل جوئی کے طریق میں ایسا تفاوت مذموم نہیں، البتہ غربا کو اٹھایا نہ جائے، خود اُٹھ جاویں کسی بہانہ سے اور اگر اٹھانا ہی پڑے تو بہت نرمی سے مثلاً یہ وقت میرے آرام یا کام کا ہے آپ بھی آرام کیجیے ومثل ذلک۔ترکِ عمل وکسل وتعطل عبدیت نہیں : ایک طالب کو تحریر فرمایا ترک عمل وکسل وتعطل کو عبدیت نہ سمجھا جاوے، عبدیت کے لیے حرکت فی العمل لازم ہے وھذا مزلۃ أقدام کثیر من أہل الطریق حتی وقعوا ورطۃ الجبر والإلحاد زعما منہم بأنہم أطوع العباد۔ عمل کے وقت تحمل، مشقتِ بغایت راحت بخش ہے: فرمایا کہ اگر اعتماد ہو بتلانے والے پر اور فہم ہو تو اللہ کا راستہ اس قدر صاف اور آسان ہے کہ دس منٹ کے اندر سمجھ میں آسکتا ہے۔ دیر اور مشقت جو کچھ ہے وہ عمل میں ہے اور وہ بھی رسوخ میں اور مشقت عینِ عمل کے وقت ہوتی ہے مثلاً: نیند کا غلبہ اور نماز پڑھنی ہے تو اس وقت مشقت ہوتی ہے، لیکن اگر اس کو برداشت کر لیا تو نماز پڑھ کر فوراً ایسی راحت میسر ہوتی ہے کہ سبحان اللہ ساری مشقت کا بدل ہو جاتا ہے۔بعض نفسانی ملکات : نفسانی ملکات کے مقتضا پر عمل نہ کیا جاوے، ہم اسی کے مکلف ہیں، بلکہ مسرت کی بات ہے کہ ان سے اجر بڑھتا ہے عمل کا۔ ایک طالب نے اپنے بعض نفسانی ملکات کو ظاہر کرکے حضرت والا سے ان کی اصلاح چاہی اور ان کے ہونے پر سخت غم واندوہ کا اظہار کیا کہ وہ مجھ میں کیوں ہیں؟ حضرت والا نے فوراً تسلی فرمائی اور اس تسلی بخش عنوان سے کہ ایسے ملکات سے کون خالی ہے؟ یہ تو مجھ میں بھی ہیں، ان کے زائل کرنے کی تو فکر بے کار ہے کیوں کہ یہ جبلّی ہیں اور جبلّت بدلا نہیں کرتی نہ انسان جبلی اُمور کا مکلف ہے کیوں کہ ان کا بدلنا غیر اختیاری ہے، البتہ ان کے مقتضا پر عمل کرنا جبلی نہیں، نہ غیر اختیاری ہے۔ لہٰذا بیعت کرکے اختیار سے کام لیا جاوے اور ان ملکات کے مقتضا پر عمل نہ ہونے دیا جاوے، باقی نفسِ ملکات چاہے جیسے فاسد ہوں، وہ اس وقت تک مطلق قابل افسوس نہیں جب تک ان پر عمل نہ ہو۔ بلکہ ایک معنی کر قابلِ مسرت ہیں، کیوں کہ ان کی وجہ سے عمل میں مشقت ہوتی ہے جس سے عمل کا اجر بڑھتا ہے اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اسی کو مولانا روم ؒ فرماتے ہیں: