انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قواعدِ شرعیہ کا مکلف ہونا : ایک صاحب نے سوال کیا عرفہ کا روزہ جو ہم لوگوں نے رکھا ہے تو کیا اس روزہ کا ثواب ہم کو وہی ملے گا جو واقعی عرفے کے دن کا ہوتا ہے، کیوں کہ دوسری جگہ سے ذی الحجہ کے چاند کی جو خبریں آئی ہیں ان سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ذی الحجہ کا چاند اُنتیس کو نظر آیا تھا، ان کے حساب سے تو پرسوں عرفہ تھا، کل نہ تھا تو اس حساب سے کل جو روزہ رکھا گیا وہ عرفہ کے دن کا روزہ نہ ہوا؟ فرمایا کہ یہاں کا عرفہ کل ہی تھا، پرسوں نہ تھا اور جو روزہ رکھا گیا وہ عرفے ہی کا روزہ ہے اور اس روزے کا ثواب ہم کو وہی ملے گا جو عرفہ کے روز کا ملتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شریعت نے ہم کو واقعہ پر عمل کرنے کا مکلف نہیں فرمایا، بلکہ صرف اس بات کا مکلف کیا ہے کہ جو بات قواعدِ شرعیہ سے ہم کو تحقیق ہو جاوے اس پر عمل کریں، خواہ واقع میں وہ بات ہو یا نہ ہو۔اختلافات کا اثر : فرمایا کہ پُرانے زمانے کے لوگوں میں اختلافات کا اثر نفرت اور انقطاع کی حد تک نہیں تھا۔ فرمایا کہ زیادہ اذیت تو بے فکری اور عدمِ اہتمام سے ہوتی ہے۔توسیع دینے سے قوتِ عملیہ بڑھتی ہے : فرمایا کہ مصلح کو تدبیر اور تربیتِ اصلاح کا حق ہے۔ چناں چہ خود حضورﷺ کی خدمت میں بنی ثقیف کا ایک وفد آیا اور عرض کیا کہ ہم لوگ اسلام لانے کو تیار ہیں، مگر دو شرطیں ہیں: ایک تو ہم زکوٰۃ نہ دیں گے، دوسرے جہاد میں شریک نہ ہوں گے فرمایا: منظور۔ دیکھیے ایسی شرطیں قبول کرلیں جو خلافِ اسلام تھیں، صحابہؓ نے عرض کیا بھی کہ حضور یہ کیسا اسلام ہے کہ نہ جہاد نہ زکوٰۃ؟ فرمایا: میاں اسلام میں آنے تو دو۔ وہ تو پھر سب کچھ کریں گے۔ زکوٰۃ بھی دیں گے، جہاد بھی کریں گے۔ ایمان کی برکت سے ایک نورِ قلب میں پیدا ہوگا، جس سے سب اعمالِ واجبہ کی توفیق ہو جاوے گی، تو دیکھیے حضور نے اس وقت سختی نہیں فرمائی۔ ایک مثال اور لیجیے ایک بی بی کو حضورﷺ نے نوحہ سے توبہ کرائی، تو انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ایک نوحہ میرے اوپر قرض چڑھا ہوا ہے اُسے اُتارنے کی اجازت دے دیجیے، پھر توبہ کر لوں گی اور پھر کبھی نوحہ نہ کروں گی۔ کوئی عورت ان کے کسی عزیز کے مرنے پر آکر روئی ہوگی، اس کے بدلے میں رونے کی اجازت چاہی۔ حضورﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی۔ اس اجازت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ اُٹھ کر چلی گئیں تو راستہ ہی سے لوٹ آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس سے بھی توبہ کرتی ہوں۔مرید وشیخ کے انشراح سے نفع ہوتا ہے : فرمایا کہ سب سے اقوال وافعال کی تاویل کی اجازت نہیں۔ تاویل یا سکوت وہاںہے جہاں شاذ ونادر ایسے اقوال وافعال صادر ہوں اور غالب حالت صلاح کی ہو۔ اور جہاں ایسے ہی منکرات کا غلبہ ہو اور اس کا ہر قول وفعل محتاجِ تاویل ہو اس سے تعلق تو چھوڑ دینا واجب ہے، لیکن اس میں پھر ایک تفصیل ہے: وہ یہ کہ اگر