انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حاصل ہوجاتی ہے اور جب وہ ان کیفیات ہی کو بزرگی سمجھ لیتا ہے، تو پھر اصلاحِ نفس واصلاح اعمال کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔ اس لیے ہمیشہ جہل میں مبتلا رہتا ہے اور اصل مقصود، یعنی وصول الیٰ اللہ سے محروم رہتا ہے، جس کا طریقِ تحصیل نصوص نے صرف اصلاح اعمال ہی کو بتلایا ہے۔اصلاح کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے : فرمایا کرتے ہیں کہ محض اذکار واشغال اصلاحِ اعمال کے لیے ہرگز کافی نہیں، اصلاح کے لیے تو ہمت اور بہ تکلف استعمالِ اختیار اور تدابیرِ استحضار اور ان کے تکرار کی ضرورت ہے، البتہ اذکار واشغال معینِ اصلاح ضرور ہو جاتے ہیں۔ اذکار واشغال کا اصلاح نفس میں اتنا ہی دخل ہے جتنا عرقِ بادیان کا مسہل میں۔حضرت والا کا طرز ابتدائی طالب کے ساتھ : ابتدا میں حضرت والا کی تمام تر توجہ اسی پر رہتی ہے کہ اصلاح اعمال کی اہمیت طالب کے اچھی طرحح ذہن نشین ہو جائے۔ جب اصلاح اعمال کی اہمیت اچھی فرح ذہن نشین ہو جاتی ہے اور طالب اپنی اصلاح اعمال میں خاص اہتمام کے ساتھ مشغول بھی ہو جاتا ہے، پھر بلا تامل اذکار اشغال بھی تعلیم فرما دیتے ہیں، پھر اس کا انتظار نہیں فرماتے کہ جب اصلاح اعمال کی تکمیل ہو جاوے اس وقت اذکار واشغال شروع کرائے جائیں۔طریق میں اصل چیز اصلاح اعمال ہے : ایک طالب نے لکھا کہ میرے معمولات فلاں فلاں ہیں، ان سب میں جو کچھ کمی ہو، اس سے سر فراز فرمائیں۔ حضرت والا نے جواب تحریر فرمایا کہ یہ تو اپنی فرصت اور عمل پر ہے، اصل چیز جس میں کمی بیشی دیکھی جاتی ہے وہ اصلاح اعمال ہے۔ادنیٰ بے تمیزی پر بھی روک ٹوک چاہیے : حضرت والا کا مطمح نظر چوں کہ اصلاح کے درجات کی تکمیل ہے، اس لیے طالب کی ادنیٰ بے تمیزی یا بے التفاتی کی روک ٹوک فرماتے اور فوراً صاف صاف تنبیہ فرماتے۔ چناں چہ ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ تمہارے خط میں ایک جملہ ہے کہ اس کے پہلے بھی ایک بار مستغنی ہو کر جواب سے محروم ہوں کیا اس جملہ میں مجھ پر اعتراض نہیں؟ اور کیا وہ اعتراض بلا دلیل نہیں؟ اور کیا اعتراض بلا دلیل سے اذیت نہیں ہوتی؟ اور کیا اذیت کی حالت میں کوئی خدمت لی جاسکتی ہے؟ پھر اپنے کو مرید اور معتقد لکھتے ہو یہ جمع بین المتضادین کیا افسوس؟ الخ۔قصد عدمِ ایذا ضروری ہے عدمِ قصد ایذا کافی نہیں : اکثر فرمایا کہ بعض لوگ قصداً ایذا نہیں پہنچاتے لیکن محض قصد عدم ایذا ضروری ہے۔تدبیرِ تحصیل وتدبیرِ تسہیل : فرمایا کہ گو سہولت کی تدبیر بتانا مصلح کے ذمہ نہیں لیکن تبرعاً بتلاتا ہوں۔ وہ یہ کہ بہ تکلف نفس کی مخالفت کرتے رہنے سے رفتہ رفتہ داعیہ ضعیف ہو جاتا ہے اور اس کی مقاومت سہل ہو جاتی ہے۔ غرض جو تدبیر