انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں ایثار کی تعلیم ہے کیوں کہ حق اللہ وہ ہے جس کا نفع وضرر اپنے نفس کو ہوتا ہے اور حق العبد وہ ہے جس کا نفع وضرر غیر کو ہوتا ہے پس مطلب یہ ہوا کہ اپنے نفس کے حقوق پر غیروں کے حقوق کو مقدم کرنا چاہیے فقہا اس کو اس عنوان سے تعبیر کرتے ہیں اور صوفیہ اس کو ایثار سے تعبیر کرتے ہیں۔ فقہا نے صرف معاملات میں ایثار کا اہتمام کیا ہے اور صوفیہ نے ہر امر میں اس کی سعی کی ہے حتیٰ کہ عبادات میں بھی، فرائض اور واجبات کے اندر تو نہیں، مگر مستحبات وفضائل میں وہ ایثار کرتے ہیں، چناں چہ اگر کبھی کوئی صوفی صفِ اول میں کھڑا ہو جاوے اس کے بعد کوئی بزرگ آجائیں، استاد یا شیخ تو وہ پیچھے ہٹ کر اپنے بزرگ کو صف اول میں جگہ دے دیتے ہیں اس پر فقہا خشک اعتراض کرتے ہیں کہ تم نے صف اول کے ثواب کو چھوڑدیا جس میں استغنا عن الثواب ہے صوفیہ کہتے ہیںکہ ایک ثواب تو صف اول میں کھڑے ہونے کا ہے اور دوسرا ثواب تعظیم اہل اللہ کا ہے جو اس سے بڑھا ہوا ہے۔ نیز اس حدیث پر عمل ہے۔ لیلیني منکم أولو الاحلام والنھیٰ تو ظاہر میں گو ہم ایک ثواب کے تارک ہیں مگر باطن میں دوسرے ثواب کے جامع ہوئے تو استغنا عن الثواب کہاں ہوا علاوہ اس کے بہ قاعدہ الدال علی الخیر کفاعلہ اس کو جو صف اول کی فضیلت ہماری وجہ سے حاصل ہوگی، اس کاثواب بھی ہم کو ملے گا تو ہم ثواب صف اول سے بھی محروم نہ ہوئے اور اس کے ساتھ دوسرے ثواب کے جامع ہوگئے۔حقوق غیر کے مقدم ہونے کی شرط : ارشاد: نفس پر حقوق غیر مقدم ہیں بشرط یہ کہ اپنی ہلاکت اور اپنے اہلِ بیت کی پریشانی کا اندیشہ نہ ہو۔حق العبد کے اقسام : ارشاد: ألا إن أموالکم ودمائکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمۃ یومکم ھذا، في شھرکم ھذا، في بلدکم ھذا، من یومکم ھذا الی یوم القیامۃ معلوم ہوا کہ حق العبد کے تین قسم ہیں جان، مال، آبرو۔مولود شریف اور جگہ تو بدعت ہے لیکن کالج میں جائز ، بلکہ حفاطت دین کا ذریعہ ہے : ارشاد: اگر کسی جگہ بدعت ہی لوگوں کے دین کی حفاظت کا ذریعہ ہو جاوے تو وہاں اس بدعت کو غنیمت سمجھنا چاہیے، جب تک کہ ان کی پوری اصلاح نہ ہو جاوے جیسے مولود شریف اور جگہ تو بدعت ہے مگر کالج میں جائز بلکہ واجب ہے، کیوں کہ اس بہانہ سے وہ کبھی رسول اللہ ﷺ کا ذکر شریف اور آپ کے فضائل ومعجزات تو سن لیتے ہیں تو اچھا ہے، اسی طرح حضور ﷺ کی عظمت ومحبت ان کے دلوں میں قائم رہے۔حکام کو ناراض کرنے کی ممانعت : ارشاد: ایسا کام نہ کرنا چاہیے جس میں حاکم کی ناراضی ہو، کیوں کہ اس کا انجام قریب ہلاکت ہے اور مدتِ دراز تک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور ایسے خطرات سے حفاظتِ نفس شرعاً مطلوب ہے، مگر اتنا فرق ہے کہ عوام تو اپنی جان سمجھ کر اپنے نفس کی حفاظت کرتے ہیں اور اہل اللہ خدا کی امانت سمجھ کر حفاظت کرتے