انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محبتِ صدیقیہ کے مشابہ محبت قابلِ شکر ہے : ایک سالک نے لکھا ہے کہ الحمدللہ حضرت سے عقیدت تو بہت پاتا ہوں، لیکن اپنے منعم ومحسن سے کچھ نہ کچھ طبعی محبت ہو جانا بھی تو معمولی انسانیت ہے، حضرت کے میرے دنیا ودین دونوں پر کتنے احسانات ہیں اور پھر کتنی شفقت ہے، اس کا خیال کرتا ہوں تو اپنی قساوتِ قلب کی شرم سے گَڑ جاتا ہوں، اتنی سنگدلی بھی بڑی بیماری ہے کہ مشکل سے کبھی رونا آتا ہے۔ جواب تحریر فرمایا کہ ایک محبت تھی صدیقِ اکبرؓ کی اور ایک حضرت فاروقِ اعظمؓ کی اور آثار دونوں کے مختلف، جو وفات شریف کے وقت ظاہر ہوئے اور روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہیں، کیا حضرت صدیقِ اکبرؓ کی محبت، محبت نہ تھی یا غیر کامل تھی؟ اگر اللہ تعالیٰ کسی پر فضل فرما کر محبت صدیقیہ کے مشابہ محبت عطا فرما دے تو محلِ شکر ہے یا محلِ شکایت؟ اور راز اس میں یہ ہے کہ یہ ایوان کا اختلاف ہے جس کا منشا کبھی اختلافِ استعداد ہوتا ہے، کبھی دوسرے اسباب، اس تفتیش کی کوئی حاجت نہیں ؎ عباراتنا شتّٰی وحسنک واحد وکلّ إلیٰ ذالک الجمال یشیرتکبر وخجلت کا علاج : ایک سالک نے لکھا کہ مجھ میں حبِّ جاہ کا مرض معلوم ہوتا ہے کہ بازار وغیرہ میں تنہا جاتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی ہے۔ فرمایا کہ بہ تکلف آباد راستوں سے تنہا بازار جایا کرو۔ ایک مرتبہ اپنے اعزا میں گیا، بوجہ بارش وغیرہ راستہ خراب تھا، گرنے کا اندیشہ تھا، اس لیے سامان کو اپنے پشت پر خلافِ عادت باندھ لیا، مگر جب ان اعزا کے گھر کے قریب پہنچا تو حجاب محسوس ہونے لگا، ناچار بغل میں دبایا۔ اس حجاب سے احقر کو خیال ہوا کہ کبھی نفس کا مکر نہ ہو، اور یہ بھی خیال ہوا کہ یہ عادت کے خلاف ہونے سے ہے، اب حضرت تحریر فرما کر مطمئن فرماویں کہ یہ کوئی مرض تکبر وغیرہ ہے یا خلاف عادت ہونے کا عار ہے؟ نیز علاج تحریر فرماویں۔ تحریر فرمایا: دونوں احتمال ہیں، لیکن علاج تو شبہ مرض میں بھی احتیاط کی بات ہے اور علاج ہے وہی بہ تکلف خلافِ نفس کرنا۔تدارکِ کمیّت میں تماثل ضرور نہیں : اپنے سارے اعمال میں عدمِ اخلاص کے شبہ وقلق کا جواب، اپنے نفس سے سوال کرو کہ اس کوتاہی کا تدارک اختیاری سے یا غیر اختیاری۔ ظاہر ہے کہ اختیاری ہے، ورنہ شکایت اور قلق ہی بے معنی ٹھہرتا ہے، جب اختیاری ہے تو اب ماضی پر حسرت انفع واہم ہے یا مستقبل میں تدارک۔ سو ظاہر ہے کہ شق ثانی ہی متعین ہے، بس تو اس کے اہتمام میں مشغول ہونا چاہیے اور شاید کسی کو پریشانی میں یہ وہم ہو کہ کوتاہی کی عمر تو اتنی دراز، اگر تدارک کے لیے اتنا دراز وقت نہ ملا تو تدارک کیسے ہوگا؟ سو حل اس کا یہ ہے کہ تدارک کا کمیت میں تماثل ضروری نہیں،