انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کاندریں راہ کار بایدکارتصرف اور’’ہمت واعمال‘‘ کے اثر کا فرق : ۳۔ اگرچہ خیال ہو کہ بعض بزرگ کی توجہ سے بڑے بڑے بدکاروں کی خودبخود اصلاح ہو گئی ہے تو یہ ایک قسم کا تصرف ہے اور ایسا تصرف نہ اختیاری ہے نہ بزرگی کے لیے لازم ہے۔ بہت سے بزرگوں میں تصرت مطلق نہیں ہوتا، نیز تصرف کے اثر کو بقا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص تنور کے پاس بیٹھ گیا تو جب تک وہاں بیٹھا ہوا ہے تمام بدن گرم ہے مگر جیسے ہی وہاں سے ہٹا پھر ٹھنڈے کاٹھنڈا۔ بخلاف اس کے جو ہمت اور اعمال کے ذریعے سے اثر ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کشتہ طلا کھلاکر اپنے اندر حرارت غریزی پیدا کر لی ہو تو اگر وہ شملہ پہاڑ بھی چلاجائے گا تب بھی وہ حرارت بدستور باقی رہے گی۔صفات رذیلہ کا مادہ تو جبلی ہوتا ہے مگر فعلِ اختیار میں ہے : ۴۔ اگر یہ شبہ ہو کہ جبلت تو کسی کی بدل نہیں ہو سکتی پھر جبلی صفات رذیلہ کی اصلاح کیوں کر ہوسکتی ہے تو خوب سمجھ لو کہ مادّہ جبلی ہوتا ہے مگر فعل اختیار میں ہے پس مادّہ بیشک زائل نہیں ہوتا مگر اس کے مقتضا پر عمل کرنا نہ کرنا اختیار میں ہے اور اسی کا انسان مکلف ہے اور باربار اس متقضا کی مخالفت کرنے سے وہ مادّہ بھی ضعیف ہوجاتاہے۔شیخ کی دعا وبرکت کا درجہ اعانت کا ہے نہ کہ کفایت کا : ۵۔ شیخ کی دعا اور برکت کو بھی بڑا دخل ہے اصلاح میں لیکن اس کا درجہ محض اعانت کا ہے نہ کہ کفایت کا، جیسے عرق سونف کا مرتبہ مسہل میں کہ محض عرق سونف بلا مسہل کے کار آمد نہیںیا طبیب اور مریض کی مثال لے لو اگر مریض دوانہ پئے تو محض طبیب کی شفقت و توجہ سے مریض ہر گز اچھا نہ ہوگا۔ یا استاد وشاگرد کی مثال لو کہ محض استاد کی توجہ سے سبق یاد نہیں ہوسکتا بلکہ شاگرد کے یاد کرنے ہی سے یاد ہوگا۔ شیخ کا اصل کام تو صرف راستہ بتانا ہے باقی راستے کا قطع کرنا تو سالک ہی کا کام ہے۔ جیسے اندھے کو سو انکھاراہ بتاتا ہے گود میں اٹھا کر اس کو نہیں لے جاتا راستہ تو خود اس کے چلنے ہی سے قطع ہوگا۔استحضار وہمت کا نسخہ اصلاح کے لیے اکسیر ہے : ۶۔ اخلاص وہمت خلاصہ تصوف ہیں۔ ان دونوں میں بھی اصل چیز ہمت ہے، کیوں کہ اخلاص پیدا کرنے کیلیے بھی ہمت کی ضرورت ہوگی اور ہمت کا معین استحضار ہے اور استحضار کی صورتیں مختلف ہیں جو صورت شیخ تجویز کردے اس پر عمل کرے، مثلاً: ہر کوتاہی پر دس رکعت یا کم وبیش نفل بطور جرمانہ ادا کرنا تاکہ جب دوسرا موقع کوتاہی کا پیش آئے تو جرمانے کے خوف سے استحضار کی کیفیت پیدا ہوجائے اور جب استحضار ہوجائے فوراً ہمت سے کام لے اور تقاضائے نفس کو مغلوب کرے اگر استحضار اور ہمت سے کام لے گا تو ان شاء اللہ کو تاہیوں سے محفوظ رہے گا اور رفتہ رفتہ اصلاح ہو جائے گی اور ہر روز مطالعہ ’’نزھۃ البساتین‘‘ سے بھی قوت استحضار