انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تحقیق: قلقِ طبعی معینِ تجدیدِ عمل ہے۔ ایسے تغیرات واسبابِ تغیرات سب کو پیش آتے ہیں۔ اکابر بھی اس سے خالی نہیں، جس کا تدارک اعادہ توجہ وعمل ہے، اس طرح قوتِ ضبط بڑھ جاتی ہے اور تمکین نصیب ہوجاتی ہے اس لیے بد دل نہ ہونا چاہیے۔ قلقِ طبعی مُضر نہیں بلکہ معین ہے تجدیدِ عمل کا، لیکن اختیاری قلق اور اس میں انہماک کے ساتھ اشتغال یہ مضر ہے، اس سے اعراض کرکے مستقبل کا انتظام درست کر لیا جاوے، اگرچہ تکلیف سے ہو، اگرچہ نشاط سے خالی ہو، چند روز میں پھر اکثر تو حالت دلخواہ ہو جاتی ہے اور نہ بھی ہو تب بھی مقصود حاصل ہے، یعنی طاعاتِ عاجلاً اور اجر آجلاً۔کِبرْ کا علاج : حال: علاجِ امراض میں کبر کا علاج مراقبہ عیوب ومعاصی سے بحمداللہ فائدہ مند ہے، اب اکثر اپنے کو اپنی حیثیت میں سمجھتا ہوں، کسی کی تحقیر وتذلیل بلکہ گالیوں سے بھی پہلا سا اثر بحمد اللہ نہیں ہوتا، غصہ بھی بہت کم آتا ہے، آتا بھی ہے تو بہت جلد زائل ہو جاتا ہے ، فالحمد للّٰہ علی ذالک۔ تحقیق: اللہ تعالیٰ ثبات ورسوخ عطا فرماوے۔حفظِ عفّت کے لیے ریل سے کُود پڑنا خود کشی نہیں : حال: ایک بی بی ڈاک گاڑی میں سفر کر رہی تھی، شام کا وقت تھا، یہ زنانہ درجہ میں تنہا تھیں، گاڑی میں ایک لمبا تڑنگا مرد چڑھ آیا اور ان کو دھمکانا شروع کیا، خدا تعالیٰ نے ان کو بھی ہمت دی، انھوں نے بھی اس کو ڈانٹا اور خطرہ کی زنجیر کھینچ لی۔ گاڑی ٹھہری اور وہ شخص کُود کر بھاگ گیا اور تاریکی میں غائب ہوگیا۔ ان بی بی نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر گاڑی نہ ٹھہری تو میں گاڑی سے کود جاؤں گی تو سوال کیا گیا کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا یہ خودکشی ہوتی؟ تحقیق: عفیف بیبیوں کو اس وقت حیا وعفّت کا اکثر اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ وقوعِ ہلاکت یا بہ تقدیر وقوعِ ذم ہلاکت کی طرف التفات بھی نہیں ہوتا، اس لیے ایسی حرکت بہ طریق اضطرار کے ہوتی ہے نیز ہلاکت یقینی بھی نہیں ہوتی، بہت لوگ اس طرح کود کر بچ بھی گئے ہیں، البتہ چوٹ ضرور لگی ہے، سو ایسے غلبہ کے وقت حق تعالیٰ کی رحمت سے اُمید ہے کہ معذور ہوں گی، اس لیے اس کو خودکشی نہ کہا جائے گا۔ وقریبا في ہذا أجاب أستاذي مولانا محمد یعقوب حین سئل عن النسوۃ اللاتي ألقین أنفسہن في البیر حین خفن علی کفتھن في الزمان المعروف بالغدر لکن إذا فات الشرط فات الشروط یعنی شعور واختیار کے رہتے ہوئے بہ قدرِ قدرت مدافعت ومقاومت کرے۔ألہیئۃ في حد البیعۃ : حال: جو لوگ کہ پِیری مُریدی کو فرضِ عین بتاتے ہیں اور آیت {وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ} [المائدۃ: ۳۵]، پیش کرتے ہیں آیا پیری مریدی کی اصل کیا ہے، فرضِ عین ہے کہ واجب ہے یا سنّتِ موکّدہ ہے یا کہ مستحب ہے اور جو لوگ آیتِ مذکورہ کو پیش کرکے فرضِ عین یا واجب بتاتے ہیں اس پر شرعاً کیا حکم ہے؟