انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نیت کی طرف التفات نہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک کام کے ساتھ دوسری باتوں کی طرف التفات کرنا موجبِ تشنت ہے، کام جبھی ہوتاہے جب اس میں ایسا لگے کہ اس وقت اس کے سوا کسی پر نظر نہ ہو۔ ایسے ہی اصلاحِ نفس میں مشغول ہوکر یہ خیال کرنا کہ ہم ایک دن مصلح بنیں گے، سدِّ راہ ہے۔زمانہ طلب میں وصول کا قصد نہ کرنا چاہیے : ارشاد: طالب کو بندہ بن کر رہنا چاہیے، کاملیت نیاید الغسال، ثمرات پر نظر نہ کرنا چاہیے کہ یوں ہوگا، یہی مطلب ہے حضرت استاد علیہ الرحمۃ کے اس قول کا: ’’مقصود طلب ہے وصول مطلوب نہیں‘‘، یعنی طلب کے وقت مقصود طلب ہے، طلب کے وقت وصول پر نظر نہ کرنا چاہیے کہ مجھے وصول ہوگا یا نہیں۔ بلکہ اس وقت اس کا یہ مذہب ہونا چاہیے: دست از طلب ندارم تا کام من بر آید یا تن رسد بجاناں یا جان زتن بر آید یا ہم اورا یانہ یا بم جستجوئے می کنم حاصل آید یا نیماید آرزوئے می کنم ہمنیم بس کہ داند ماہِ رویم کہ من نیز از خریداران اویم ظاہر ہے کہ یہ تھوڑی بات نہیں، جب انھیں خبر ہوجائے گی تو وہ اپنے خریدار کو محروم نہ رکھیں گے۔ عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد اے خواجہ درو نیست وگرنہ طبیب ہست