انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَاط} (إلی قولہ تعالی) {لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ ٰاٰتکُمْط} [الحدید: ۲۲-۲۳] یعنی حق تعالیٰ مسئلہ تقدیر کو بیان کرکے فرماتے ہیں کہ ہم نے تم کو اس لیے خبر کی ہے تاکہ جو چیز تم سے فوت ہو جاوے اس پر تم کو رنج نہ ہو اور جو کچھ تم کو دیا ہے اس پر اتراؤ نہیں۔آخرت میں کلام فی التقدیر کے متعلق پوچھ ہوگی : ارشاد: حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی مسئلہ تقدیر میں زیادہ گفتگو کرے گا، آخرت میں اس کی پوچھ ہوگی کہ ہاں صاب! تم مسئلہ تقدیر کے بڑے محقق تھے، ذرا ہمارے سامنے تو بیان کرو اور یقینا اس مسئلہ میں ہم جو کچھ بھی تحقیقات بیان کریں گے وہ اس قابل نہ ہوں گی کہ حق تعالیٰ کے سامنے بیان کر سکیں، کیوں کہ وہ محض تخمینات وظنیات ہوں گی اور حق تعالیٰ کے سامنے یقینیات ہی کو بیان کر سکتے ہیں نہ کہ تخمینات کو۔حق تعالیٰ شانہٗ کی توجہ کا عام طریق سلوک : ارشاد: حق تعالیٰ شانہٗ کے توجہِ عام کا طریق سلوک ہی ہے اور جذب وہب کا طریق عام نہیں، اس کی ایسی مثال ہے، جیسے حصول اولاد کا عام طریق نکاح اور زوجین کا ہم بستر ہونا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بدونِ شوہر کے اولاد ہوگئی، جیسے مریم ؑ کے عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے اور کبھی بدونِ ماں باپ کے بھی تکوّن ہوا ہے، جیسے آدم ؑ، پس وہب کے بھروسے رہنا اور سلوک کو اختیار نہ کرنا غلطی ہے۔جذب کی دو قسمیں ہیں : ارشاد: جذب کی دو قسمیں ہیں: ایک قبل العمل، ایک بعد العمل، مگر زیادہ وقوع جذب بعد العمل کا ہے، عادۃ اللہ یہی ہے کہ سلوک یعنی عمل مقدم ہوتا ہے اور جذب مؤخر ہوتا ہے اور کبھی اس کا بھی وقوع ہوا ہے کہ عمل سے پہلے ہی جذب ہوگیا اور جذب کے بعد عمل مرتب ہوا۔ چناںچہ {اﷲُ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُص} [آل عمران: ۱۷۹] میں جذب قبل العمل کا بیان ہے اور {یَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُط} [الشوریٰ: ۱۳] میں جذب بعد العمل کا۔ سو اس جذب قبل العمل کو دیکھ کر یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ سلوک وعمل بے کار ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ عمل علّتِ تامہ وصول وقرب کی نہیں بلکہ شرط اکثری ہے، جیسے علاج علّت صحت کی نہیں، ہاں شرطِ اکثری صحت کی ہوسکتا ہے۔عمل سے جنت نہ ملے گی اس کی توضیح : ارشاد: لا یدخل الجنۃ أحد لعملہ میں علّیتِ اعمال کی نفی ہے اور مقصود اس سے عجب کا علاج ہے کہ کوئی عمل کرکے اترائے نہیں کہ میں نے اپنے عمل سے جنت لے لی، کیوں کہ اول تو عمل کے بعد بھی جذب کی ضرورت ہے اور جذب کا مدار مشیتِ حق پر ہے، یعنی سلوک کے بعد بھی وصول کا مدار ایصالِ حق پر ہے، دوسرے علّت ومعلول میں مناسبت بھی شرط ہے عقلاً جزائِ عظیم کا ترتب عملِ عظیم ہی پر ہوسکتا ہے تو اب دیکھ لو جنت کس درجہ عظیم ہے اور تمہارا عمل کیسا ہے، جنت تو کماً وکیفاً ہر طرح عظیم ہے، کماً تو اس کی عظمت یہ ہے کہ غیر متناہی ہے