انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تکبر کی حد : تہذیب: تکبر یہ ہے کہ اپنی صفاتِ حمیدہ کو اپنا کمال سمجھے عطا وفضلِ حق پر نظر نہ کرے اور دوسروںکو حقیر سمجھے، باقی اپنی صفات کی نفی کرنا تواضع نہیں ہے، مثلاً: حافظ کو اپنے حفظ کا اعتقاد جائز ہے ہاں! اس کو عطیہ الٰہی سمجھے۔عجب ہر عمل میں دو حیثیت ہیں : تہذیب: عمل میں دو حیثیت ہیں: ایک اپنا کمال اس اعتبار سے (یعنی اپنا کمال سمجھ کر) اس پر نظر نہ کرنا چاہیے، دوسرا یہ کہ یہ خدا کی رحمت ہے اس اعتبار سے اس پر مسرت مامور بہٖ ہے۔ {قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا} [یونس: ۵۸]۔اہلیت وقابلیت کی شرط عطیۂ خداوندی ہے : حال: بعض حضرات میرے سامنے استخلاف وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو مجھے بالکل یہ معلوم ہوتا ہے کہ میرا مذاق کررہے ہیں قلب میں بجائے خوشی کے ایک رنج پیدا ہوتاہے۔ تہذیب: الحمد للہ! یہ علامت ہے عدمِ عجب کی، حق تعالیٰ اس میں ترقی عطا فرماویں کہ اپنے کو کبھی اہل نہ سمجھیں۔ لیکن اس حالت میں یہ مزید شکر کا سبب ہونا چاہیے کہ باوجود نا اہلی کے حق تعالیٰ نے یہ نعمت دی اور اس کو فالِ نیک سمجھنا چاہیے عطائے اہلیت کی۔ ولنعم ما قیل: داد اورا قابلیت شرط نیست بلکہ شرط قابلیت داد اوستتوفیقِ الٰہی پر شکر چاہیے : تہذیب: کام کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنے اعمال کو اپنا کمال نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر کریں کہ انھوں نے ہم سے کام لے لیا ورنہ ہماری کیا طاقت تھی: منت منہ کی خدمت سلطان ہم کنی منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتاظہارِ عمل کب نقص ہے اور کب کمال : تہذیب: اظہارِ عمل مطلقاً نقص نہیں اور نہ اخفائے عمل مطلقاً کمال ہے بلک نقص جب ہے کہ اپنے اوپر نظر ہو اور کمال جب ہے کہ اپنے اوپر نظر نہ ہو بلکہ صرف خالق جلَّ وعلیٰ پر نظر ہو۔