انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
وضرر اور تاثیر کی حیثیت سے نظر کر سکتا ہے، نہ اس حیثیت سے اس کا ذکر کرسکتا ہے۔ چناں چہ یہی مطلب ہے حسین بن منصور حلّاج کے اس قول کا کہ لا یجوز لمن یری غیر اللّٰہ، ویذکر غیر اللّٰہ أن یقول: عرفت اللّٰہ الأحد الذي ظہر عنہ الأحاد۔ (۷) چوں کہ صوفیائے کرام اخلاق ِالٰہیہ سے متخلّق ہوتے ہیں، ان میں رحم وکرم زیادہ ہوتا ہے تو وہ مسلمانوں کے تمام مختلف فرقوں سے ہمدردی کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا چاہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہر فرقہ ان کو اپنی جماعت میں داخل سمجھتا ہے اور ان کا فیض مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہتا، کفار بھی ان کے معتقد ہوتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں جس طرح اطبائے اجسامیہ کی طرف ہر فرقہ اور ہر جماعت کو میلان ہوتا ہے۔ (۸) حسین بن منصور حلّاج فرماتے ہیں کہ اوّلین وآخرین کے علوم کا خلاصہ چار باتیں ہیں: (۱) ربِّ جلیل کی محبت۔ (۲) متاعِ قلیل (یعنی دنیا) سے نفرت۔ (۳) کتابِ منزّل کا اتباع۔ (۴) تغیر حال کا خوف۔(۹) عین الجمع اور جمع الجمع کی تحقیق : اس کی حقیقت اصطلاحِ صوفیہ میں یہ ہے کہ سالک سے مخلوق کا مشاہدہ سلب کر لیا جاوے حتیٰ کہ اپنی ذات کا بھی مشاہدہ فنا ہو جاوے۔ سلطان حقیقت کے غلبہ وظہور کی وجہ سے غیر حق کا احساس بالکلیہ جاتا رہے، وہ کسی کمال کو اپنی یا غیر کی طرف منسوب نہیں کرسکتا کیوں کہ کاسب اور مظہرِ وہی ہے (ألجمع بالحق لَفرقۃ عن غیرہ والتفرقۃ عن غیرہ جمع بہ) اور اس حالت کا پورا غلبہ ہو جاوے تو جمع الجمع یاعین جمع کہلایا جاتا ہے، اصطلاح صوفیہ میں۔ (۱۰) غیر مقبول سے حُسنِ ظن مُضر نہیں۔ (۱۱) سوئِ ظن کے لیے دلیل قوی کی ضرورت ہے اور حسنِ ظن کے لیے سوئِ ظن کی دلیل کا نہ ہونا کافی ہے۔ جس شخص کی زبان یا قلم سے کلمہ کفر صادر ہو، اگر وہ معنیٰ کفر کا التزام کرے تو کسی تاویل کی ضرورت نہیں، بلکہ اس پر حکم کفر کا لگا دیا جائے گا اور اگر معنیٰ کفر کا التزام نہ کرے، بلکہ اس سے اپنی براء ت ظاہر کرے اور کلام میں دوسرے معنیٰ کا احتمال بھی ہو یا وہ خود اپنے کلام کے دوسرے معنیٰ بیان کرے، جس کا لغتاً یا عرفاً یا اصطلاحاً استعمال ہو، تو اس صورت میں تکفیر جائز نہیں یا اگر اس سے براء ت بھی منقول ہو، لیکن کوئی وجہ اس میں صحت کی نکل سکتی ہو تب بھی تکفیر جائز نہیں، اگرچہ وہ وجہ بعید ہو، خصوص جب کہ اس کے قائل میں آثارِ قبول وصلاح کے غالب ہوں، خلاصہ یہ کہ سوئِ ظن کے لیے دلیل قوی کی ضرورت ہے، حسنِ ظن کے لیے سوئِ ظن کی دلیل کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔