انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حدیث میں ہے : الحدہ تعتري خیار أمتي: یعنی تیز مزاجی میری اُمت کے نیک لوگوں کو پیش آتی ہے اور اس کی حقیقت حق پر غیرت ہے اور اس کے ظاہر کرنے کی حقیقت ترکِ تکلف ہے۔شیخ وطالب میں توافقِ طبایع کا ہونا شرطِ نفع ہے: فرمایا کہ عدمِ مناسبت کی صورت میں جو میں قطع تعلق کر دیتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بدونِ مناسبت کے شیخ سے کچھ نفع نہیں ہوتا، ہے تو فحش مثال لیکن مثال تو محض توضیح کے لیے ہوتی ہے اس لیے نقل کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں، وہ یہ کہ اطباع کا اس پر اتفاق ہے کہ جب تک توافق انزالین نہ ہو حمل نہیں قرار پاتا، اگرچہ زوجین دونوں تندرست اور قوی ہوں، اسی طرح اگرچہ شیخ اور طالب دونوں صالح ہوں، لیکن باہم توافقِ طبایع نہ ہو تو پھر تعلق ہی عبث ہے اور اس کا قطع کر دینا ہی مناسب ہے، کیوں کہ اجتماع بلا تناسب نہ صرف غیر مفید بلکہ موجبِ تشویش جانبین ہوتا ہے، یہ بھی فرمایا کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی خاص شیخ سے عدم مناسبت طالب کے نقص ہی کی دلیل ہے، کیوں کہ طبایعِ فطری مختلف ہوتی ہیں، بعض کو کسی سے مناسبت ہوتی ہے، بعض کو کسی سے، لیکن ہر حال میں مدارِ نفع مناسبت ہی پر ہے، اس لیے یہ ہوسکتا ہے کہ مختلف الطبایع پِیر اور مُرید دونوں کی استعدادیں اپنی اپنی جگہ کامل ہوں اور دونوں متقی ہوں، لیکن پھر بھی بوجہ عدمِ تناسب طبایع ان کا اجتماع موجب تشویشِ جانبین ہو جاوے۔علامت مناسبتِ شیخ ومُرید اور تردُّد وخطرہ کا فرق : فرمایا کہ بعضوں نے مجھ سے سوال کیا کہ شیخ کے ساتھ مناسبت ہونے نہ ہونے کی علامت کیا ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ گویہ امرذوقی ہے، لیکن میں الفاظ میں اس کی تعبیر کیے دیتا ہوں۔ مناسبت کی علامت یہ ہے کہ شیخ کے کسی قول یا فعل پر اس کے (شیخ کے) خلاف طالب کے قلب میں کوئی اعتراض یا شبہ جزم یا تردُّد (یعنی احتمال صحت جانبین کے ساتھ) پیدا نہ ہو (خطرہ کا جس میں جانب مخالف کے بطلان کا تیقن ہوتا ہے اعتبار نہیں) یہاں تک کہ اگر کسی کے کسی قول یا فعل کی تاویل بھی سمجھ میں نہ آوے (کیوں کہ اول تاویل ہی کرنی چاہیے) تب بھی دل میں اس کی طرف سے انکار پیدا نہ ہو، بلکہ اپنے آپ کو یوں سمجھائے کہ آخر یہ بھی تو بشر ہی ہے، اگر اس کا کوئی قول وفعل گناہ بھی ہو تب بھی کیا ہوا توبہ سے یا محض فضل سے اس کی معافی ہوسکتی ہے۔عدمِ مناسبت کے وقت کا دستور العمل : فرمایا کہ اگر شیخ کے خلاف اعتراضات اور شبہات پیدا ہوتے ہوں تو سمجھ لے کہ مجھ کو اس سے مناسبت نہیں اور اس کو بلا اس کی دل آزاری کیے چھوڑ دے، کیوں کہ نفع کا مدار یکسوئی اور شیخ کے ساتھ حسنِ اعتقاد پر ہے اور اعتراضات اور شبہات کی صورت میں کہاں، لہٰذا اس کو چھوڑ دینا مناسب ہے، لیکن گستاخی عمر بھر نہ کرے، کیوں کہ اول اول راہ پر تو اسی نے ڈالا ہے اور اس معنی کر وہ محسن ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایسے اُمور کا بھی مرتکب ہو جو بظاہر خلافِ سنت ہوں لیکن اس میں اجتہاد کی گنجایش ہو خواہ بعید ہی سہی پھر بھی گستاخی نہ کرے۔