انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اورجو منافع اہلِ ہوانے خود تراشے ہیں جو واقع میں مضار ہیں ان کے اعتبار سے اس کو لہو ولعب فرمایا ہے پس دنیا کی ہر چیز فی نفسہٖ حکم ومصالح ومنافع سے لبریز ہے، عبث وفضول کوئی نہیں مگر جب وہ مقصودِ اصلی یعنی منافعِ اخرویہ سے مانع ہوجائے تو اس وقت یہی منافع جن کو ہم نے منافعِ دنیا کا اصل اصول سمجھ رکھا ہے اور وقعت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں انہی کو لہو ولعب سے تعبیر کیا جاتاہے۔ کیوں کہ منافعِ دنیوی در اصل فانی اور مردہ ہیں اور منافعِ اخروی زندہ، پس کار آمد چیز کو چھوڑ کر بے کار شے کے پیچھے پڑنا اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔حفاظتِ مآل کے لیے وسعتِ مال مذموم نہیں : تہذیب: اگرکوئی شخص مآل سے محفوظ ہونے کا انتظام کرے تو اس کے لیے مال کی وسعت مذموم نہیں۔ترقی فی الدنیا ترقی فی غیر المقصود ہے اور ترقی فی الدین ترقی فی المقصود : تہذیب: مقاصد دو قسم کے ہیں: ایک مقاصدِ دینیہ دوسرے مقاصد دنیویہ اور دنیا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصود لغیرہٖ ہے، جیساکہ اہلِ اسلام کا سب کا عقیدہ اور دین مقصود بالذات ہے، پس معلوم ہوگیا کہ ترقی فی الدنیا ترقی فی غیر المقصود ہے اور ترقی فی الدین ترقی فی المقصود ہے۔ اس کا مقتضا یہ تھا کہ ترقی فی الدین کے لیے کوئی حد نہ ہوتی کیوں کہ ظاہراً مقصود میں جس قدر بھی ترقی ہو بہتر ہی ہے مگر ترقی فی الدین کے لیے بھی حدود ہیں بلکہ حدود کے ساتھ قیود بھی ہیں، (حدود وہ ہے جو کسی شے کا منتہیٰ ہو اور قید وہ ہے جو اس حدکے اندر اس شے میں تخصیص کردے، مثلاً: نماز کی ایک توحد ہے کہ عصر کی نماز میں چار رکعت میں اس سے زیادہ منع ہیں اور قیود یہ ہیں کہ جیسے نماز کے لیے باوضو ہونا،مستقل قبلہ ہونا طہارتِ مکان ولباس وغیرہ )، غور کرکے دیکھا جائے تو مقاصدِ دینیہ میں حدود وقیود دونوں موجود ہیں۔طولِ امل غیر ممنوع وہ ہے جو خدمتِ دین کے لیے ہو : تہذیب: جس طولِ امل سے ممانعت ہے وہ وہ ہے جو دنیا کی ہوس کے لیے ہو اور جس طولِ امل کی اجازت علما کے لیے ہے وہ وہ ہے جو خدمتِ دین کے لیے ہے اور حقیقت میں طولِ امل نہیں صرف صورتاً طول امل ہے۔زیور اور لباس کی محبت کم کرنے کا علاج : تہذیب: زیور ولباس کی محبت کم کرنے کا علاج یہ ہے کہ اپنے گھر میں سب لباس وزیور پہنا کریں اور دوسرے گھر میں معمولی لباس وزیور پہن کر جایا کریں۔تعلق غالب مذموم وہ ہے جس کے بعد یافوت سے طاعات میں قلت وضعف آجائے : تہذیب: تعلق غالب مذموم یہ ہے کہ محل تعلق کے بعد یا فوت سے قلب پر ایسا اثر ہو کہ قلب کو ایسا بے چین کردے کہ اسی کے تصور وحسرت میں اشتغال ہوجائے اور اسی اشتغال سے طاعات میں قلت اور ضعف آجائے اور اگر یہ نوبت نہ پہنچے تو محض حزن کا اثر مانع