انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جہنم میں مومن کو مشاہدہ راحت کا ہوگا بوجہ محبتِ الٰہی کے : تہذیب: جہنم میں اوّل تو کفار کے برابر تکلیف نہ ہوگی، پھر مسلمانوںکو خدا تعالیٰ سے محبت زیادہ ہوجائے گی اس لیے مومن کو عذاب میں بھی مشاہدہ راحت کا ہوگا۔محبت کا مقتضا رضا وتفویض ہے : تہذیب: محبت کا مقتضا یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے سارے تصرفات پر راضی رہے۔ اپنی ساری تجویزوں کو فنا کردے۔ دل لگنے نہ لگنے کا طالب نہ ہو، لذت وذوق کی ہوس نہ کرے بلکہ کام میں لگا رہے۔موت سے وحشت دور ہونے کی تدبیر : تہذیب: اگر یہ چاہو کہ موت آسان ہوجائے اور اس سے وحشت نہ رہے، اس کا اشتیاق ہوجائے تو خدا کی محبت اور اطاعت حاصل کیجیے۔ اکثر طبائع پر موت کا خوف ہی غالب ہے اور اس سے طبعاً وحشت ہوتی ہے اور اس طبعی وحشت میں کوئی گناہ بھی نہیں، مگر اس کی ضرور کوشش کرنا چاہیے کہ طبعی وحشت موت کے وقت نہ رہے۔ اس وقت اشتیاق کی حالت غالب ہوجائے۔ اس وقت اگر شوق غالب رہا تو موت کی ذرا بھی تکلیف نہ ہوگی اور اشتیاقِ موت ولقاء اللہ کی تمنا پیدا ہونے کی تدبیر کثرتِ ذکر وکثرتِ طاعت اور اجتنابِ معصیت ہے۔محبتِ عقلیہ مامور بہا ہے، کیوں کہ اس کا منشا محبوب کا کمال ہوتاہے : تہذیب: اولاد اور بیوی کے ساتھ طبعی محبت ہے عقلی محبت نہیں اور طبعی محبت تو جانوروں کوبھی اپنی اولاد وغیرہ سے ہوتی ہے یہ کچھ کمال نہیں اور نہ خدا ورسول کے ساتھ یہ محبت مامور بہا ہے بلکہ محبتِ عقلیہ مامور بہا ہے۔ جس کا منشا محبوب کا کمال ہوتاہے، سو یہ محبت اللہ ورسول کے ساتھ زیادہ ہے اور کسی کے ساتھ ان کے برابر نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی صاحبِ کمال نہیں، اور خدا تعالیٰ کے بعد رسول اللہﷺ کے برابر کوئی صاحبِ کمال نہیں۔ترغیبِ شدت تعلق مع اللہ : تہذیب: محبوب کے راستے میں ایک سرکیا ہزار سر بھی پھوٹ جائیں تو تھوڑے ہیں۔ اور اگر جان بھی جاتی رہے تو عین سعادت ہے۔ مقصود حبِّ عقلی ہے: تہذیب: جیسے غلبہ خشیت سے کثرتِ بکا حالت محمود ہے گو مقصود نہیں، اسی طرح غلبہ محبت طبعی گو محمود ہے مگر مقصود نہیں مقصود حبِّ عقلی ہے۔جوش کی کمی علامتِ محرومی نہیں : تہذیب: جوش کا اکثر قاعدہ ہے کہ جب تک مطلوب حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک رہا کرتاہے۔ حصولِ مطلب کے بعد جوش نہیں رہا کرتا، ہاں! اگر مطلوب سے تعلق رہے تو بجائے شوق کے انس پیدا ہو جاتاہے۔ پس اس کا کم ہونا محرومی کی علامت نہیں بلکہ وصول کی علامت ہے۔محبتِ طبعی پر محبتِ عقلی کے وجوہ کی ترجیح : تہذیب: محبتِ عقلی راجح ہے محبتِ طبعی پر، کیوں کہ محبتِ طبعی اختیاری