انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محبوبہ ہے جس کی ایک نگاہ کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی کوئی چیز نہیں۔کامل توجہ دینا کی طرف معینِ آخرت ہے : تہذیب: دنیا کی حالت پر ضرور توجہ کرو مگر کامل توجہ کرو جس سے حقیقت منکشف ہو، نا تمام توجہ نہ کرو کہ ظاہر ہی تک رہ جاؤ اور حقیقت اس کی مستور رہ جائے۔ترقی مروجہ اور ترقی حقیقی کا فرق : تہذیب: {فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ}[البقرۃ: ۱۴۸] میں خود ترقی کا حکم ہے لیکن اس قیدکے ساتھ کہ ترقی خیر میںہونی چاہیے۔ آپ ترقی ورم کے حامی ہیں خواہ دین سلامت رہے یا نہ رہے اور ہم بدون سلامت دین کے ترقی ورم کو ترقی ورم سمجھتے ہیں۔ جس شخص کے بدن پر ورم ہوجائے ظاہر میں وہ بھی ترقی یافتہ ہے مگر حقیقت میں وہ تنزل کی طرف جارہا ہے۔دنیا بذاتہٖ بھی قابلِ نفرت ہے کیوں کہ اس کا کوئی طالب راحت میں نہیں : تہذیب: امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں تو بالکل قابلِ نفرت ہے ہی لیکن اس سے قطع نظر وہ بھی خود اپنی حالتِ ذاتیہ پر نظر کرکے قابلِ نفرت ہے، کیوں کہ طالبِ دنیا کوئی راحت میں نہیں ہے۔ چناںچہ اگر ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ کو چھوڑ کر ان کی اندرونی حالت کو ان کے پاس رکھو تو معلوم ہوگا کہ کوئی پریشانی سے خالی نہیں، بخلاف طالبِ آخرت کے سب کے سب راحت میں ہیں۔دنیا کی مطلوبیت کی دو حیثیتیں ہیں اور دونوں قابلِ نفرت ہیں : تہذیب: اگر دنیا کی حقیقت پر نظر کرو تو دنیا میں اس کی مطلوبیت کی دو حیثیتیں ہیں: ایک مطلوبیت اس کے صفات کے اعتبار سے دوسری مطلوبیت اس کی غایت کے اعتبار سے صفت کے اعتبار سے دنیا کی حالت یہ ہے کہ وہ فانی ہے اور آخرت باقی ہے اور باقی کے مقابلے میں فانی قابلِ رغبت نہیں ہوا کرتا اور غایت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کو عیش وآرام کے لیے طلب کیا جاتاہے۔ عام طور سے لوگ عمدہ لباس عمدہ مکان اور عمدہ غذا کو عیش وآرام سمجھتے ہیں حالاںکہ یہ محض اسبابِ عیش وآرام ہیں لیکن حقیقت عیش وآرام کی راحت قلب ہے اور ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ راحت قلبِ دین ہی سے حاصل ہوتی ہے طلبِ دنیا سے حاصل نہیں ہوتی۔فقروفاقہ کی ترغیب : تہذیب: حضرت ابراہیم بن ادہم ؒ سے جب کوئی فقرو فاقہ کی شکایت کرتا تو فرماتے کہ تم اس دولت کی قدر کیا جانو تم کو یہ دولت مفت مل گئی۔ اس کی قدر مجھ سے پوچھو کہ سلطنت کو چھوڑ کر فقر وفاقہ کو خریدا ہے۔منافعِ اخرویہ کے سامنے منافعِ دینویہ لاشے ہیں : تہذیب: لعب کہتے ہیں لغو اور عبث فعل کو اور لہو کہتے ہیں غفلت میں ڈالنے والی بات کو، جن منافعِ اخرویہ کے لیے یہ اشیائے دنیا وضع کی گئی ہیں ان کے اعتبار سے یہ عبث وباطل نہیں