انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی فال بد میں کہ ناجائز ہے، ورنہ تاثیر کا اعتقاد دونوں جگہ ناجائز ہے۔(۶۹) قوتِ حفظیہ کا وظیفہ : فرمایا کہ پانچوں نمازوں کے بعد سر کے اوپر ہاتھ رکھ کر گیارہ بار یاقوی پڑھنا قوتِ حافظہ کے لیے نافع ہے۔(۷۰) سلام کے جواب کا شرعی طریقہ : فرمایا کہ فقہا نے السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام اور ألسلام علیکم دونوں کو کافی لکھا ہے، یہ بھی فرمایا کہ بعض بچوں کے طرف سے خطوں میں جو سلام لکھا ہوا آتا ہے تو عام عادت تو یہ ہے کہ اس سلام کے جواب میں صرف دعا لکھ دیتے ہیں، مگر میرے نزدیک اس سے جواب ادا نہیں ہوتا، اس لیے میں تو سلام ودعا دونوں لکھتا ہوں، لیکن اگر وہ سلام بچہ نے نہ لکھوایا ہو، کسی بڑے نے اس کی طرف منسوب کر دیا ہو تو اس کا جواب ہی واجب نہیں۔(۷۱) میّت کا بھی ادب زندہ کا سا ہے : فرمایا کہ فقہا نے لکھا ہے کہ مردہ کے پاس جب اس کی قبر پر جائے تو وہی معاملہ کرے جو معاملہ اس کی زندگی میں اس کے ساتھ کرتا، یعنی مردہ کا بھی ادب اتنا ہی ہے جتنا زندہ کا، دلیل اس قول کی یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سے میرے حجرے میں حضرت عمرؓ مدفون ہوئے ہیں، اس وقت سے میری عادت ہے کہ جب میں اس حجرہ میں داخل ہوتی ہوں تو حیاء ً امن عمرؓ یعنی بوجہ حیا کے اپنا منہ ڈھانک لیتی ہوں، بس معلوم ہوا کہ میّت کا ادب بعد موت بھی وہی ہے جو اس کی زندگی میں تھا۔(۷۲) برکت کی نیت سے ہدیہ مناسب نہیں : فرمایا کہ جو برکت کی نیت سے مجھ کو ہدیہ دیتا ہے میں قبول نہیں کرتا، کیوں کہ میں صاحب برکت نہیں اور جو محض محبت سے دیتا ہے، اس کا قبول کر لیتا ہوں۔(۷۳) ادب کا مدار عرف ہے : فرمایا کہ من جملہ احکامِ شرعیہ کا ایک حکم یہ ہے کہ کسی چیز کے ادب میں غلو نہ کرنا چاہیے اور فرمایا کہ ادب کا مدار عرف پرہے، یعنی کوئی فعل جو فی نفسہٖ مباح ہو، اگر عرفاً بے ادبی سمجھا جائے گا تو شرعاً بھی وہ فعل بے ادبی ہوگا۔ (۷۴) فرمایا کہ جمعیت اور انشراح سے سالک کو باطنی ترقی ہوتی ہے، زیادہ رنج وغم سے ہم لوگوں کے اندر مایوسی پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہے، اس لیے ہم کو ہر وقت اپنے آپ کو خوش رکھنا چاہیے تاکہ حق تعالیٰ سے ہم کو محبت پیدا ہو، ورنہ بلاؤں کے اندر محبت کا باقی رہنا ہم لوگوں کا کام نہیں، صدِّیقین کی شان ہے۔ (۷۵) فرمایا کہ شرکِ اکبر کے جتنے افراد ہیں، وہ جیسے شرعاً باطل ہیں اسی طرح عقلاً ممتنع بالذات ہیں، مثلاً: کسی کے لیے علمِ مستقل کا قائل ہونا یا قدرتِ مستقلہ کا قائل ہونا کہ ایسا کہ علم وقدرت حادث کے لیے ممتنع بالذات بھی ہے۔