انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مال کا جمع کرنا مطلقاً خلاف زہد نہیں : تہذیب: مال کا جمع کرنا مطلقاً خلافِ زہد نہیں، البتہ اس کو ذریعہ معاصی بنانا خلافِ زہد ہے۔ بعضوں کے لیے مالدار ہونا ہی مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کس کو مال سے قرب ہوگا اور کس کو افلاس سے، اس لیے کسی کو مال دیتے ہیں اور کسی کو مفلس رکھتے ہیں۔مداراۃ اور مداہنت کا فرق : تہذیب: جو نرمی کسی مصلحت یا ضرورت سے ہو وہ مداراۃ ہے اور جو غیر ضروری مال یا جاہ کے تحصیل یا بقا کے لیے ہو وہ مداہنت ہے۔آخرت کے مقابلے میں دنیا کا ہیچ ولاشے ہونا مع مثال : تہذیب: دنیا آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہے لاشے ہے جیسے ستارے آفتاب کے سامنے کچھ نہیں اور کنسٹبل وائسرائے کے سامنے کچھ نہیں۔حصولِ دنیا پر فخر کرنے کی مثال : تہذیب: آج کل فخراً کوئی کہتا ہے: مجھ کو اتنا نفع ہوا، دوسرا کہتاہے: میرے پاس اتنا جمع ہے، اس کی ایسی مثال ہے جیسے دو بھنگی آپس میں فخر کریں ایک کہے: میں نے اتنے ٹوکرے گوکے کمائے دوسرا کہے: میں نے تجھ سے زیادہ کمائے۔مال کو مقصود بالذات بنالیناپوری حماقت ہے اور اولاد تو اس سے بھی گھٹیا ہے : تہذیب: مال سے مقصود دفع ضرورت اور دفع ضرورت سے مطلوب بقاء النفس ہے، تو اصل مقصود کے لیے یہ واسطہ در واسطہ ہے پھر ایسے واسطے کو مقصودبنالینا حماقت ہی نہیں کہ دن رات اس میں مشغول ہو اور بقاء النفس جو مطلوب ہے وہ بھی بے حقیقت ہے، کیوں کہ اس کا بقا چند روزہ ہے جو قابلِ اعتبار نہیں۔ غرض مال خود مطلوب بنانے کے ہر گز قابل نہیں اور اولاد تو اس سے بھی گھٹیا ہیں کہ وہ تو بقائے نفس کے لیے بھی نہیں صرف بقائے نوع کے لیے مطلوب ہیں۔حبِّ دنیائے مذموم کی تفصیل : تہذیب: میں کسبِ دنیا سے منع نہیں کرتا بلکہ حبِّ دنیاسے منع کرتاہوں: کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ بلکہ {قُلْ اِنْ کَانَ ٰابَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ} [التوبۃ: ۲۴] میں تو اللہ تعالیٰ کی کمالِ رحمیت کی شان ظاہر ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی محبت سے بھی منع نہیں کرتے بلکہ احبیت سے منع کرتے ہیں کہ دنیا کی محبت اللہ ورسول کی محبت سے زیادہ ہو، جس کی علامت یہ ہے کہ اطاعتِ احکام میں اختلال ہوجائے بلکہ طبعی احبیت سے منع نہیں فرماتے صرف عقلی احبیت سے منع فرماتے ہیں اور احبیتِ عقلیہ کا معیار یہ ہے کہ اطاعتِ احکام اور جہاد فی سبیلہ میں کمی نہ ہو، اگر یہ معیار محفوظ ہے تو پھر طبعی محبت اگر دنیا سے یا بیوی سے یا اولاد سے زیادہ بھی ہو تو کچھ ڈر نہیں۔ اگر ایک شخص اپنے بیٹے کے مرنے پر زیادہ روئے اور حضورﷺ کی وفات کے واقعہ کو سن کر زیادہ نہ روئے تو مواخذہ نہ ہوئے گا، مواخذہ اس پر ہوگا کہ تزاحمِ دین ودنیا کے موقع پر دنیا کو دین پر ترجیح دے اور اگر یہ نہ ہو بلکہ دنیا کی محبت اور حرص کو دباکر دین پر فدا کرے گو ترک دنیا