انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کبھی کیفیات کا منشا معدہ کی خرابی ہوتی ہے : اکثر فرمایا کہ اس طریق میں جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں وہ سب باطنی ہی نہیں ہوتیں، بلکہ بطنی بھی ہوتی ہیں جو پیٹ کی خرابی اور معدہ کی تبخیر وغیرہ سے پیدا ہو جاتی ہیں۔حُبّ ِ شیخ واتباع سنت : حضرت والا حضرت مجدّد الف ثانی کے اس ملفوظ کو نہایت تاکید اور اہتمام کے ساتھ نقل فرماتے ہیں کہ حُبِّ شیخ اور اتباعِ سنت کے ہوتے ہوئے اگر لاکھ ظلمات بھی ہوں تو وہ سب انوار ہیں اور اگر ان میں سے ایک چیز بھی کم ہو تو پھر لاکھ انوار ہوں وہ سب ظلمات ہیں۔ذکر وطاعات میں مشغولیت : حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ ذکر وطاعات میں بتکلف مسغول رہنا چاہیے نہ سہولت کا متمنی رہے، نہ یہ دیکھے کہ مجھے کچھ نفع ہو رہا ہے یا نہیں، ذکر وطاعات میں مشغول رہنا ہی اصل مقصود ہے اور اصل نفع ہے۔روحِ سلوک : ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ مقصد کے حصول کا قلب میں تقاضا اور انتظار نہ رکھیں کہ یہ بھی حجاب ہے، کیوں کہ اس سے تشویش ہوتی ہے اور تشویش برہم زن جمعیت وتفویض ہے اور جمعیت وتفویض ہی وصول کی شرط عادی ہے، اس کو خوب راسخ کرلیں کہ روح سلوک ہے۔شیخ کی صحبت اعمال میں مناسبت پیدا کرتی ہے : فرمایا کہ طالب شیخ کے پاس رہ کر دُزدیدہ طور پر اس کے اخلاق وعبادت کو اخذ اور کمالات کو جذب کرتا رہتا ہے اور اس طرح روز بروز شیخ کا رنگ چڑھتا چلا جاتا ہے، جیسے مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے۔ نیز صحبت شیخ میں بدون معتد بہ مدت تک رہے شیخ سے مناسبت نہیں پیدا ہوتی اور شیخ کی مناسبت ہی اس طریق میں نفع کی عادتاً موقوف علیہ ہے۔شیخ کی اِطاعت واتباع کافی ہے : فرمایا کہ حبِّ شیخ (جو مرادف ہے مناسبت کاملہ کی) کلیدِ کامیابی ہے اور کلید جملہ سعادات وبرکات ہے، لیکن حبِ عقلی اطاعت واتباع کو بالکل کا فی وافی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ حبِّ طبعی اختیاری نہیں اور عبد غیر اختیاری امور کا مکلف نہیں۔ چناں چہ ایک طالب کو تحریر فرمایاکہ توجہ الی اللہ اصل مقصود ہے اور شیخ کی محبت اسی مقصود کا ذریعہ ہے، پس اگر کسی کو خدا تعالیٰ یہ مقصود نصیب کردے اور شیخ سے ذرا بھی متعارف محبت نہ ہو مگر اطاعت اور اتباع ہو تو وہ شخص سراسر حق پر فائز ہے۔واسطہ شیخ کی مثال : فرمایا کہ دراصل تو کام ذکر وشغل ہی بناتا ہے لیکن شیخ کا واسطہ بھی ضروری ہے، جیسے کاٹ تو تلوار ہی کرتی ہے لیکن اسکا کسی کے قبضہ میں ہونا شرط ہے۔