انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی جانب عمل کو مامورات میں ترجیح دے اور جانب عدم عمل کو منہیات میں، اسی کا نام تحصیل عمل ہے۔ بس اس سے بھی معلوم ہوا کہ جب انسان اس تکلیف کا مکلف بنا دیا گیا تو سہولت کی طلب کہ بس ہم کو اپنے ارادہ واختیار سے کچھ کرنا ہی نہ پڑے ظلم ہے اور جو شخص امانت الٰہیہ اختیار کرے اور ایسی بڑی امانت کو ضائع کرے جس میں انسان تمام مخلوق میں ممتاز ہے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا۔لذائذِ دنیا کی حکمت : ارشاد: لذائذ دنیا کی حکمت یہ ہے کہ یہ نمونہ ہوں لذائذِ آخرت کے پس اگر کوئی صوفی کھانا کھاتے ہوئے لذیذ شوربے میں پانی کا پیالہ بھر کر ڈالدے تاکہ نفس کو لذت نہ آئے تو وہ طفلِ طریقت ہے یہ اس تجلی الٰہی کو برباد کرتا ہے (وہ تجلی الٰہی یہی ہے کہ وہ مذکّر ہے نعمائے آخرت کی) جو لذیذ طعام کے ساتھ متعلق ہے اور اس حکمت کو برباد کرتا ہے جو لذائذِ دنیا میں رکھی گئی ہے۔دعوت مشتبہ کے قبولیت کی صورت : ارشاد: بھرے مجمع میں داعی کو ذلیل کرنا اس طرح کہ پوچھے دودھ کہاں سے آیا۔ گوشت کس طرح لیا گیا یہ تقویٰ کا ہیضہ ہے، اگر کسی شخص پر اطمینان نہ ہو تو یا تو اس کی دعوت ہی منظور نہ کرے لطیف پیرایہ سے عذر کردے، یہ نہ کہے کہ آپ کی آمدنی حرام ہے اس لیے دعوت قبول نہیں کر سکتا، کیوں کہ اس عنوان سے اس کی دل شِکنی ہوگی۔ اگر امر بالمعروف کا خیال ہو تو امر بالمعروف میں بھی یہ شرط ہے کہ ایسا وقت اور موقع تجویز کرے جس میں مخاطب کے قبول کی امید ہے۔ اگر کوئی شبہ داعی کی آمدنی کی حرمت کا ہو تو بہترین صورت یہ ہے کہ مجمع کے سامنے تو بلا شرط قبول کرلے، پھر تنہائی میں لے جا کر ان سے کہہ دے کہ ذرا کھانے میں اس کی رعایت رکھی جاوے کہ تمام سامان تنخواہ کی رقم سے کیا جاوے۔اہل اللہ نے حق تعالیٰ کے ذرا ذرا سی تجلّیات کی بے حد قدر کی ہے اور ان کی حکمتوں کے ابطال کو ممنوع فرمایا ہے : ارشاد: ایک بار حضرت غوث اعظم ؒ وعظ فرما رہے تھے کہ درمیان میں دفعتاً ساکت ہو گئے کچھ دیر تک ساکت رہ کر پھر بیان شروع فرمایا اور کہا کہ اس وقت میرے سکوت کی یہ وجہ ہوئی کہ ایک بزرگ ابھی شام سے بغداد ایک قدم میں بطورِ کرامت کے آئے تھے میں نے ان کو متنبہ کیا ہے کہ اس تصرّف میں حکمت عطائے قدم کا ابطال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قدم اس لیے دیئے ہیں تاکہ ان سے مشی کا کام لیا جاوے جب بطورِ کرامت کے راستہ طے کیا جاوے گا تو اس میں یہ حکمت باطل ہوگی وہ بزرگ اس سے توبہ کر کے واپس گئے (مطلب یہ کہ از خود ایسا تصرف نہ کرنا چاہیے اور اگر بلا قصد کے کبھی حق تعالیٰ طویل راستہ کو قصیر کردیں تو وہ کرامت غیر اختیاریہ ہے جو نعمت ہے) اس سے معلوم ہوا کہ جب اہل اللہ نے حق تعالیٰ کی ذراذرا سی تجلیات کی اس قدر عظمت کی ہے اور ان کی حکمتوں کے ابطال کو ممنوع فرمایا ہے تو بتلایئے